بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گاڑی کرایہ پر دے کر اس کی مرمت کا خرچہ کرایہ دار پر لگانا / ایمبولنس یا گاڑی میں میت رکھ کر جنازہ پڑھنا / تراویح کی امامت کی اجرت لینا


سوال

 (1) ہمارے بنگلہ دیش میں رکشہ، پرائیویٹ کار اور بس اس شرط کے ساتھ اجارہ پر دیا جاتا ہے کہ گاڑی چلاتے وقت ڈرائیور کے ہاتھ میں گاڑی کا جو نقصان ہوگا جیساکہ انجن خراب ہوگیا،  یا چکا برسٹ ہوگیا تو اس کی مرمت کی ذمہ داری مالک پر نہیں، بلکہ ڈرائیور پر ہے، فائدہ اس کا یہ ہے کہ گاڑی چلاتے وقت ڈرائیور متنبہ رہے گا، ورنہ وہ گاڑی بے پروا چلائے گا، اور گاڑی کے نقصان کا خیال نہیں کرے گا۔ کیا اس طرح کا اجارہ جائز ہے؟

(2) ایمبولینس، ٹرک یا کسی دوسری گاڑی میں میت  رکھ کر  جنازہ پڑھانا جائز ہے یا نہیں ؟

(3) سورہ تراویح یعنی الم تر سے لے کر سورہ ناس تک کی سورتیں پڑھ کر امامت کرکے اجرت لینا شریعت میں جائز ہے یا نہیں ؟ دارالعلوم دیوبند سے عدمِ جواز  کا فتوی شائع ہوا ۔ مگر بنگلہ دیش کے دارالافتاء سے جائز کا فتوی شائع ہوا۔ اس بارے میں آپ حضرات کا فتوی کیا ہے؟

جواب

1۔۔ اجارہ اور کرایہ پر دی جانے والی چیز کو انتفاع کے قابل بنانے کی ذمہ داری مالک کی ہوتی ہے، اور کرایہ پر دی ہوئی چیز  میں ملکیت  چوں کہ مالک کی ہوتی ہے، اس لیے ملکیت سے متعلقہ ذمہ داری بھی اسی کی ہوتی ہے، لہذا گاڑی یا کوئی بھی چیز اس شرط پر کرایہ پر دینا کہ اس کی مرمت  اور پرزوں کی اصلاح کا کام کرایہ دار کے ذمہ ہوگا، اجارہ کو فاسد کردیتا ہے، اس لیے اس شرط کے ساتھ اجارہ کا معاملہ کرنا جائز نہیں ہے، کرایہ پر دینے کے بعد اگر گاڑی وغیرہ میں کوئی نقصان ہوگیا تو  اگر وہ نقصان کرایہ پر لینے والی کی تعدی (زیادتی) یا کوتاہی سے ہوا ہو  اور وہ ثابت بھی ہوجائے تو اس کا ضمان اس کے ذمہ ہوگا، اور اگر تعدی اور کوتاہی ثابت نہ ہو تو اس کا ضمان کرایہ دار پر نہیں ہوگا۔

المبسوط للسرخسي (16/ 34):
"واشتراط تطيين الدار ومرمتها أو غلق باب عليها، أو إدخال جذع في سقفها على المستأجر مفسد للإجارة؛ لأنه مجهول، فقد شرط الأجر لنفسه على المستأجر".

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (4/ 194):
"ولو استأجر داراً بأجرة معلومة وشرط الآجر تطيين الدار ومرمتها أو تعليق باب عليها أو إدخال جذع في سقفها على المستأجر فالإجارة فاسدة؛ لأن المشروط يصير أجرةً وهو مجهول فتصير الأجرة مجهولةً، وكذا إذا آجر أرضاً وشرط كري نهرها أو حفر بئرها أو ضرب مسناة عليها؛ لأن ذلك كله على المؤاجر، فإذا شرط على المستأجر فقد جعله أجرةً وهو مجهول فصارت الأجرة مجهولةً".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 46):
"(تفسد الإجارة بالشروط المخالفة لمقتضى العقد فكل ما أفسد البيع) مما مر (يفسدها) كجهالة مأجور أو أجرة أو مدة أو عمل، وكشرط طعام عبد وعلف دابة ومرمة الدار أو مغارمها وعشر أو خراج أو مؤنة رد، أشباه.

(قوله: ومرمة الدار أو مغارمها) قال في البحر: وفي الخلاصة معزياً إلى الأصل: لو استأجر داراً على أن يعمرها ويعطي نوائبها تفسد؛ لأنه شرط مخالف لمقتضى العقد اهـ. فعلم بهذا أن ما يقع في زماننا من إجارة أرض الوقف بأجرة معلومة على أن المغارم وكلفة الكاشف على المستأجر أو على أن الجرف على المستأجر فاسد كما لايخفى اهـ. أقول: وهو الواقع في زماننا، ولكن تارةً يكتب في الحجة بصريح الشرط فيقول الكاتب: على أن ما ينوب المأجور من النوائب ونحوها كالدك وكري الأنهار على المستأجر، وتارةً يقول: وتوافقا على أن ما ينوب إلخ. والظاهر أن الكل مفسد؛ لأنه معروف بينهم وإن لم يذكر، والمعروف كالمشروط، تأمل".

2۔۔  نمازِ  جنازہ کی ادائیگی کے لیے میت کا یا جس چیز پر میت ہو مثلاً: تخت، ڈولی وغیرہ،  اس کا سامنے ہونا اور  زمین پر رکھا ہوا ہونا ضروری ہے،  لہذا اگر کسی عذر کے بغیر میت کو لوگ اپنے ہاتھوں پر اٹھائے ہوئے ہوں یا وہ  کسی گاڑی/ایمبولینس  یا جانور پر ہو اور اسی حالت میں اس کی نماز پڑھی جائے تو  نمازِ جنازہ صحیح نہیں ہوگی۔

فتح القدير للكمال ابن الهمام (2/ 127):
"ولاتجوز الصلاة والميت على دابة أو أيدي الناس لأنه كالإمام".

تبيين الحقائق  (1/ 242):
"وكذا لاتجوز على ميت، وهو على الدابة أو على أيدي الناس على المختار".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 209):
"فلاتصح على غائب ومحمول على نحو دابة وموضوع خلفه، لأنه كالإمام من وجه دون وجه.

(قوله على نحو دابة) أي كمحمول على أيدي الناس، فلاتجوز في المختار إلا من عذر، إمداد عن الزيلعي، وهذا لو حملت على الأيدي ابتداء؛ أما لو سبق ببعض التكبيرات فإنه يأتي بعد سلام الإمام بما فاته، وإن رفعت على الأيدي قبل أن توضع على الأكتاف كما سيأتي (قوله: لأنه كالإمام من وجه) لاشتراط هذه الشروط وعدم صحتها بفقدها أو فقد بعضها".

3 ۔۔   تراویح میں قرآنِ مجید سناکر یا سورت تراویح پڑھاکر اجرت لینا اور لوگوں کے لیے اجرت دینا جائز نہیں ہے، لینے اور دینے والے  دونوں گناہ گار ہوں گے اورثواب بھی نہیں ملے گا، جمہور علماءِ کرام کا یہی مؤقف ہے، اس حالت میں بہترہےکہ {الم ترکیف}  سےتراویح پڑھادی جائے، اس سےبھی تراویح کی سنت ادا ہوجائےگی۔

البتہ اگر حافظ کو رمضان المبارک کے لیے نائب امام بنادیا جائے اور اس کے ذمہ ایک یا دو نمازیں  سپرد کردی جائیں اور اس خدمت کے عوض تنخواہ کے عنوان سے اسے کچھ دے دیا جائے (خواہ وہ زیادہ ہو یا کم) تو اس کے لینے اور دینے کی گنجائش ہوگی ۔اسی طرح اگر بلاتعیین کچھ دے دیاجائےاورنہ دینے پرکوئی شکایت بھی نہ ہو اور نہ وہاں بطورِ اجرت لینے دینے کا عرف ورواج ہوتو یہ صورت اجرت سےخارج اورحدِجوازمیں داخل ہوسکتی ہے۔ (کفایت المفتی ،3/،410۔395)

اور اگر تراویح سنانے والا اس مسجد کا ہی امام ہو اور انتظامیہ/کمیٹی رمضان المبارک میں الاؤنس یا اضافی مشاہرے کی صورت میں امام کا تعاون کردے تو یہ تراویح کی اجرت میں داخل نہیں ہوگا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201887

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں