بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

گاڑی، موٹر سائیکل اور فلیٹ پر زکاۃ کا حکم


سوال

میری ملکیت میں ایک گاڑی ایک موٹر سائیکل اور دو فلیٹ ہیں، ایک میں رہتا ہوں اور دوسرا کرائے پر دیا ہوا ہے اور تیسرا فلیٹ بک کروایا ہے جس کا قبضہ 2019 میں ملے گا، تقریباً چار لاکھ کیش ہے، زکاۃ کیسے نکالوں؟

جواب

گاڑی، موٹر سائیکل اور جس فلیٹ میں آپ رہائش پذیر ہیں اس پر زکاۃ نہیں ہے، اسی طرح جو فلیٹ آپ نے کرائے پر دیا ہوا ہے اس کی بھی مالیت پر زکاۃ نہیں ہے،  البتہ اس سے حاصل ہونے والا کرایہ اگر بچت میں ہو، اور زکاۃ کا سال مکمل ہوجائے تو دیگر قابلِ زکاۃ اموال کے ساتھ اسے بھی شامل کرکے ڈھائی فی صد بطورِ زکاۃ ادا کرنا لازم ہوگا۔

باقی جو فلیٹ آپ نے بُک کروایا ہے اگر وہ رہائش کے لیے بُک کروایا ہے تو اس پر بھی زکاۃ نہیں ہے اور اگر وہ نفع کے ساتھ بیچنے کے لیے خریدا ہے تو اس کی موجودہ کل مالیت پر زکاۃ لازم ہو گی، البتہ اگر اس کی قیمت قسطوں کی صورت میں ادا ہورہی ہے ، تو رواں سال جتنی قسطیں جمع کرانی ہیں اتنی رقم فلیٹ کی کل موجودہ مالیت سے منہا کرکے بقیہ  مالیت کا ڈھائی فی صد زکاۃ میں دینا آپ پر لازم ہو گا (اگرچہ اس کا قبضہ ابھی تک نہ ملا ہو)۔

نقد چار لاکھ روپے جو آپ کے پاس موجود ہیں، اگر وہ بنیادی اخراجات سے زائد ہیں، اور آپ پر قرض بھی نہیں ہے تو ان کی زکاۃ دس ہزار  روپے ہوگی، لیکن اگر آپ پر قرض ہے (مثلاً: بک کیے گئے فلیٹ کی قسطیں ادا کرنی ہیں)  تو  (جتنی قسطیں رواں سال ادا کرنی ہیں) اسے  منہا کرکے بقیہ رقم پر ڈھائی فی صد بطورِ زکاۃ دینا لازم ہوگا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143908200199

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں