بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیبل کنیکشن کے کام کا حکم


سوال

میرے سسر کا کیبل کنیکشن کا کام تھا، کچھ دنوں پہلے ان کا انتقال ہوگیا ہے، تو کیا یہ کیبل والا کام میری ساس آگے چلا سکتی ہیں؟ یعنی کیبل کا کام کرنا اسلام میں جائز ہے یا نہیں؟

جواب

ٹی وی  کا استعمال جان دار کی تصاویر پر مشتمل پروگرام دیکھنے میں ہوتا ہے اور ان  پروگراموں میں  فحش تصاویرنہ بھی ہوں تب بھی بوجہ تصویر ہونے کے از روئے شرع ان کا دیکھنا اور دکھانا حرام ہے، جب کہ ٹی وی پر آنے والے اکثر پروگرام فحاشی، عریانیت اور بے حیائی پر مشتمل ہوتے ہیں،  اس لیے ٹی وی معصیت کا آلہ ہے،  لہٰذا ٹی وی  کی خرید و فروخت اور کاروبار ہی جائز  نہیں ہے۔  جب ٹی وی ہی معصیت کا آلہ ہے تو ٹی وی کیبل اس کے لیے معاون ہے ، اور ٹی وی کیبل سپلائی کرنے والا براہِ راست اس گناہ کے کام میں تعاون کرنے والے ہوتا ہے، لہذا ٹی وی کیبل کا کام کرنا، یا اس کی سپلائی کرنا جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ اس میں براہِ راست گناہ پر تعاون لازم آتا ہے، جس سے قرآن و حدیث میں منع کیا گیا ہے۔

البتہ انٹرنیٹ کیبل کے کاروبار کی گنجائش ہے، کیوں کہ انٹرنیٹ کا استعمال صحیح اور غلط دونوں مقاصد کے لیے ہوتا ہے، انٹرنیٹ کے ذریعے بہت سے جائز کام بھی کیے جاسکتے ہیں، اس لیے انٹرنیٹ کیبل کی سپلائی اور شیئر کرنا جائز ہے۔ اگر اس کا کوئی ناجائز استعمال کرتا ہے تو اس کا گناہ اسی غلط استعمال کرنے والے پر ہوگا۔

البحرالرائقمیں ہے :

"وقد استفيد من كلامهم هنا أن ما قامت المعصية بعينه يكره بيعه، وما لا فلا، ولذا قال الشارح: إنه لايكره بيع الجارية المغنية والكبش النطوح والديك المقاتل والحمامة الطيارة".(5/155)

فتاوی شامی میں ہے :

"وكذا لايكره بيع الجارية المغنية والكبش النطوح والديك المقاتل والحمامة الطيارة؛ لأنه ليس عينها منكراً، وإنما المنكر في استعمالها المحظور اهـ  قلت: لكن هذه الأشياء تقام المعصية بعينها لكن ليست هي المقصود الأصلي منها، فإن عين الجارية للخدمة مثلاً والغناء عارض فلم تكن عين المنكر، بخلاف السلاح فإن المقصود الأصلي منه هو المحاربة به فكان عينه منكراً إذا بيع لأهل الفتنة، فصار المراد بما تقام المعصية به ما كان عينه منكر بلا عمل صنعة فيه، فخرج نحو الجارية المغنية؛ لأنها ليست عين المنكر، ونحو الحديد والعصير؛ لأنه وإن كان يعمل منه عين المنكر لكنه بصنعة تحدث فلم يكن عينه". (4/268) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200598

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں