اسلم صاحب کی کل اولاد پانچ بیٹے اور 2 بیٹیاں ہیں، مگر اسلم صاحب کی زندگی میں ہی ان کے ایک بیٹے کا انتقال ہو گیا تھا جس کی دو بیٹیاں ہیں ، سوال یہ ہے کہ کیا اسلم صاحب کی ان دو یتیم پوتیوں کا اسلم صاحب کی متروکہ جائیداد میں کچھ حصہ ہوگا؟ اگر نہیں ہوگا تو کیا اخلاقاً ان کو کچھ دینا ہوگا؟
واضح رہے کہ میراث کا حق دار ہونے کے لیے وارث کا مورث ( جس سے میراث ملنی ہے) کی موت کے وقت زندہ ہونا شرعاً ضروری ہے ، صورتِ مسئولہ میں اسلم صاحب کی موت سے پہلے جس بیٹے کا انتقال ہو گیا تھا وہ اسلم صاحب کی میراث کا شرعاً حق دار نہیں ہوا جس کی وجہ سے اس کی بیٹیاں بھی اپنے دادا کی میراث کی شرعاً حق دار نہیں ہوئیں، البتہ تقسیمِ میراث کے وقت مرحوم اسلم صاحب کے چار بیٹے اور دو بیٹیاں اپنی مرضی اور خوشی سے اپنے مرحوم بھائی کی یتیم بیٹیوں کو کچھ دینا چاہیں تو شرعاً یہ پسندیدہ ہے، سورہ نساء میں ہے:
﴿ وَاِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ اُولُو الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنُ فَارْزُقُوْهُمْ مِّنْهُ وَقُوْلُوْا لَهُمْ قَوْلاً مَّعْرُوْفاً ﴾ [النساء:8]
ترجمہ: اور جب میراث کی تقسیم کے وقت (وہ) قریبی رشتہ دار (جن کا میراث میں شرعی حصہ مقرر نہیں ہو) اور یتیم اور مساکین حاضر ہوں تو انہیں ترکے میں سے کچھ بطورِ رزق دے دو اور ان سے اچھی بات کہو۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143908200003
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن