بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا کسی خاتون کو نبوت عطا ہوئی؟


سوال

کیا عورت نبی بن سکتی ہے؟

جواب

جمہور اہلِ علم کا اس پر اتفاق ہے کہ منصبِ نبوت و رسالت پر صرف مرد ہی فائز ہوئے ہیں، خواتین میں سے کسی کو شرف حاصل نہیں، قرآنِ کریم میں تین خواتین:  حضرت سارہ زوجہ حضرت ابراہیم علیہ السلام،  حضرت موسی علیہ السلام کی والدہ اور  حضرت عیسی علیہ السلام کی والدہ حضرت مریم کے لیے ایسے الفاظ استعمال فرمائے ہیں جن میں سے بعض میں ان کے سامنے فرشتے کا آکر کلام کرنا اور اللہ تعالیٰ کا کوئی پیغام پہنچانا مذکور ہے، اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کے لیے وحی کا لفظ استعمال فرمایا گیا ہے، لیکن ان کلمات سے ان خواتین کی نبوت ثابت نہیں ہوتی، ہاں دیگر خواتین پر ان کی بہت بڑی فضیلت ثابت ہوتی ہے، صرف فرشتے کا کسی کے پاس آکر کلام کرنا یا اللہ کا پیغام لے کر آنا منصبِ نبوت عطا ہونے کے لیے کافی نہیں ہے، نبوت تب عطا ہوتی ہے جب فرشتہ یہ وحی لے کر آئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت عطا فرمادی ہے یا اللہ تبارک و تعالیٰ براہِ راست ہم کلام ہوکر یا وحی بھیج کر منصبِ نبوت عطا فرمائیں، اسی طرح صرف وحی کے لفظ سے نبوت ثابت نہیں ہوتی، کیوں کہ وحی کا لفظ عربی زبان اور اصطلاحی استعمال کے اعتبار سے مختلف معانی کا حامل ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کے دل میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے یہ اِلقا ہوا کہ وہ بیٹے کو دریا میں ڈال دیں، چوں کہ یہ اِلقا اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھا، اسی الہامِ خداوندی کو وحی سے تعبیر کیا گیا ہے۔

جامعہ کے سابقہ فتاویٰ میں ہے:

’’قرآن شریف میں جہاں جہاں عورت کے لیے ’’وحی‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے، وہ وحیِ نبوت نہیں ہے، بلکہ وحیِ الہام ہے، یعنی اس وحی سے مراد اصطلاحی وحی نہیں ہے، بلکہ الہام مراد ہے، جس کے لیے نبی ہونا شرط نہیں ہے، جیساکہ سورۂ قصص میں سات نمبر آیت میں ہے: {واَوْحَیْنَا اِلیٰ اُمِّ مُوْسٰی} اور ہم نے حکم بھیجا موسیٰ کی ماں کو، یعنی اس کی ماں کو الہام ہوا، یا خواب دیکھا یا اور کسی ذریعے سے معلوم کرادیا گیا ۔۔۔ (فوائدِ عثمانی، (ص:514) ط: سعودی عرب)

اسی طرح اس آیت کے تحت ’’تفسیرِ بغوی‘‘ میں ہے:

’’{واَوْحَیْنَا اِلیٰ اُمِّ مُوْسٰی} وهي وحي إلهام لا وحي نبوة ...‘‘.

اسی طرح نبی کے علاوہ جہاں کہیں بھی وحی کا لفظ استعمال ہوا وہ اصطلاحی وحی کے معنیٰ میں نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد الہام ہے، جیساکہ قرآنِ مجید میں دوسری جگہ پر ہے:

{واَوْحٰی رَبُّكَ اِلَى النَّحْلِ} [النحل:68]

یعنی حکم دیا تیرے رب نے شہد کی مکھی کو ۔۔۔الخ‘‘ 

تفسیرِ مظہری میں ہے:

’’أجمعوا علی أنه لیس بوحي نبوة؛ فإنّ النبي لایکون إلا رجلاً‘‘.

سورہ مائدہ میں جہاں عیسائیوں کے عقیدۂ  تثلیث کا رد کیا گیا، وہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ صدیقہ مریم رضی اللہ عنہا کا مقام اللہ تعالیٰ سے جدا کرکے واضح کیا گیا کہ اللہ تو وحدہ لاشریک لہ ہے، عیسیٰ اللہ کے رسول ہیں اور ان کی والدہ صدیقہ ہیں، اگر ان کی والدہ بھی نبی یا رسول ہوتیں تو اللہ پاک اس موقع پر ضرور ان کی نبوت کی خبر دیتے، کیوں کہ یہ موقع تینوں (اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی کامل ذات، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ حضرت مریم) کے مقام کے بیان اور عیسائیوں کے باطل عقیدے کے رد کا تھا، اور جب اللہ پاک کسی کا مقام واضح اور متعین فرمائیں اس میں ایک رتی برابر کمی بیشی کا احتمال نہیں ہوسکتا، اور یہ بات بھی واضح ہے کہ حضرت مریم کے سامنے جس طرح جبریل امین آئے اور جس شان و اہتمام کے ساتھ قرآنِ مجید میں ان کے پاس اللہ کے حکم اور فرشتے کے آنے کا ذکر ہے، ان کے علاوہ کسی خاتون کے سامنے اس طرح فرشتے کے حکم لانے کا یا اللہ تعالیٰ کے حکم دینے کا ذکر نہیں ہے، (حضرت سارہ کے سامنے فرشتے کا بشارت دینا ثانوی درجہ رکھتاہے، کیوں کہ اصل ملاقات تو ابراہیم علیہ السلام سے تھی، اور انہیں بشارت دینے کے ساتھ ساتھ قومِ لوط پر عذاب کا انتظام کرنا تھا، اس دوران حضرت ابراہیم علیہ السلام کی موجودگی میں نیک بی بی حضرت سارہ رضی اللہ عنہا کو بھی بشارت دے دی گئی، اس میں اَحکام کی تلقین یا نزول نہیں ہے، اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کے لیے بھی ایک موقع پر صاحب زادے کو دریا میں ڈالنے کا شدید داعیہ پیدا ہوا، گویا یہ تکوینی فیصلہ تھا، اسے حکمِ خداوندی کہا گیا) جب حضرت مریم کا مقام اللہ تعالیٰ نے خود ’’صدیقہ‘‘ متعین فرمایا اور اسی کے متصل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مقام ’’رسول‘‘  ہونا متعین فرمایا تو معلوم ہواکہ یہ خواتین بھی نبی نہیں تھیں۔

سورہ مائدہ کی آیات ملاحظہ فرمائیے:

{قَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ ثَالِثُ ثَلَاثَةٍ ۘ وَمَا مِنْ إِلَٰهٍ إِلَّا إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۚ وَإِن لَّمْ يَنتَهُوا عَمَّا يَقُولُونَ لَيَمَسَّنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (73) أَفَلَا يَتُوبُونَ إِلَى اللَّهِ وَيَسْتَغْفِرُونَهُ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (74) مَّا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ وَأُمُّهُ صِدِّيقَةٌ ۖ كَانَا يَأْكُلَانِ الطَّعَامَ ۗ انظُرْ كَيْفَ نُبَيِّنُ لَهُمُ الْآيَاتِ ثُمَّ انظُرْ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ (75)}

اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ پاک کی کئی آیات میں صراحتاً ارشاد فرمایا ہے کہ ہم نے آپ ﷺ سے پہلے مرد ہی رسول بناکر بھیجیے ہیں، ان مواقع میں سے ایک سورۂ یوسف کی آیت نمبر 109 بھی ہے، اس کی تفسیر کرتے ہوئے حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

{وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِي إِلَيْهِم مِّنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ ۗ أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۗ وَلَدَارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ اتَّقَوْا ۗ أَفَلَا تَعْقِلُونَ} [يوسف: 109]

"يخبر تعالى أنه إنما أرسل رسله من الرجال لا من النساء.

وهذا قول جمهور العلماء، كما دل عليه سياق هذه الآية الكريمة: أن الله تعالى لم يوح إلى امرأة من بنات بني آدم وحي تشريع.

وزعم بعضهم: أن سارة امرأة الخليل، وأم موسى، ومريم أم عيسى نبيات، واحتجوا بأن الملائكة بشرت سارة بإسحاق، ومن وراء إسحاق يعقوب، وبقوله: (وأوحينا إلى أم موسى أن أرضعيه) الآية. [ القصص : 7 ] وبأن الملك جاء إلى مريم فبشرها بعيسى عليه السلام، وبقوله تعالى: (وإذ قالت الملائكة يا مريم إن الله اصطفاك وطهرك واصطفاك على نساء العالمين يا مريم اقنتي لربك واسجدي واركعي مع الراكعين ) [ آل عمران : 42 ، 43 ].

وهذا القدر حاصل لهن، ولكن لايلزم من هذا أن يكن نبيات بذلك، فإن أراد القائل بنبوتهن هذا القدر من التشريف، فهذا لا شك فيه، ويبقى الكلام معه في أن هذا: هل يكفي في الانتظام في سلك النبوة بمجرده أم لا؟

الذي عليه [ أئمة ] أهل السنة والجماعة، وهو الذي نقله الشيخ أبو الحسن علي بن إسماعيل الأشعري عنهم: أنه ليس في النساء نبية، وإنما فيهن صديقات، كما قال تعالى مخبراً عن أشرفهن مريم بنت عمران حيث قال: (ما المسيح ابن مريم إلا رسول قد خلت من قبله الرسل وأمه صديقة كانا يأكلان الطعام) [ المائدة : 75 ] فوصفها في أشرف مقاماتها بالصديقية، فلو كانت نبيةً لذكر ذلك في مقام التشريف والإعظام، فهي صديقة بنص القرآن".

معارف القرآن میں ہے:

(آیت) {وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِيْٓ اِلَيْهِمْ مِّنْ اَهْلِ الْقُرٰى} [یوسف: 109]

اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے رسولوں کے متعلق لفظ رجالاً سے معلوم ہوا کہ رسول ہمیشہ مرد ہی ہوتے ہیں عورت نبی یا رسول نہیں ہوسکتی،  امام ابن کثیر نے جمہور علماء کا یہی قول نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی عورت کو نبی یا رسول نہیں بنایا بعض علماء نے چند عورتوں کے متعلق نبی ہونے کا اقرار کیا ہے، مثلاً حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بی بی سارہ اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ اور حضرت مریم ام عیسیٰ (علیہ السلام)؛ کیوں کہ ان تینوں خواتین کے بارے میں قرآنِ کریم میں ایسے الفاظ موجود ہیں جن سے سمجھا جاتا ہے کہ بحکمِ خداوندی فرشتوں نے ان سے کلام کیا اور بشارت سنائی یا خود ان کو وحی الہی سے کوئی بات معلوم ہوئی، مگر جمہور علماء کے نزدیک ان آیتوں سے ان تینوں خواتین کی بزرگی اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کا بڑا درجہ ہونا تو ثابت ہوتا ہے، مگر وہ فرماتے ہیں کہ صرف یہ الفاظ ان کی نبوت و رسالت کے ثبوت کے لیے کافی نہیں اور اسی آیت میں لفظ  اَهْلِ الْقُرٰى  سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول عموماً شہروں اور قصبوں کے رہنے والوں میں سے بھیجتے ہیں، دیہات اور جنگل کے باشندوں میں سے رسول نہیں ہوتے؛ کیوں کہ عموماً دیہات اور جنگل کے باشندے سخت مزاج اور عقل و فہم میں کامل نہیں ہوتے‘‘۔ (ابن کثیر و قرطبی وغیرہ) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200253

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں