بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا پب جی (pubg) گیم میں بت کے سامنے جھکنے والا دائرۂ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے؟


سوال

گزشتہ جمعہ کو ہماری مسجد کے امام صاحب نے بیان میں فرمایا کہ جو شخص پب جی (pubg) گیم کھیلتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے اس کا نکاح باقی نہیں رہا۔ یعنی جو احکام اسلام سے نکلنے کی صورت میں لگتے ہیں وہ سب بیان کئے۔ براہ مہربانی اس بارے میں راہنمائی فرمائیں جزاک اللہ خیرا

جواب

معلومات کے مطابق پب جی (pubg) گیم میں بعض دفعہ پاور حاصل کرنے کے لیے گیم کھیلنے والے (sanhok) کو بتوں کے سامنے پوجا کرنی پڑتی ہے، اور گیم کھیلنے والے شخص کا گیم میں موجود اپنے کھلاڑی کو پاور حاصل کرنے کے لیے بتوں کے سامنے جھکانا اور بتوں کی پوجا کروانا اس کا اپنا فعل ہے، گیم میں نظر آنے والا کھلاڑی اسی گیم کھیلنے والے کا عکاس اور ترجمان ہے، اور مسلمان کا توحید کا عقیدہ ہوتے ہوئے بتوں کے سامنے جھکنا شرک فی الاعمال ہے، اور گیم میں یہ عمل کرنے سے رفتہ رفتہ بتوں کے سامنے جھکنے کی قباحت بھی دل سے نکل جائے گی، لہذا یہ گیم کھیلنا ناجائز ہے، اور پب جی گیم میں بتوں کے سامنے جھک کر پاور حاصل کرنا شرک ہے، اور عمدًا اس کو کرنے والا دائرۂ اسلام سے خارج ہوجائے گا، ایسے شخص پر تجدیدِ ایمان اور شادی شدہ ہونے کی صورت میں تجدیدِ نکاح بھی کرنا ضروری ہے۔

اور اگر کوئی شخص پب جی گیم میں شرک کا کوئی عمل نہیں کرے پھر بھی شرک پر راضی رہنے اور کئی اور مفاسد پر مشتمل ہونے کی وجہ سے پب جی گیم کھیلنا جائز نہیں ہے۔

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل فتاویٰ ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں:

پب جی گیم کا حکم

پب جی (PUBG) گیم کا حکم

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (ج:4، ص:222، ط: دار الفكر-بيروت):

(قوله من هزل بلفظ كفر) أي تكلم به باختياره غير قاصد معناه، وهذا لا ينافي ما مر من أن الإيمان هو التصديق فقط أو مع الإقرار لأن التصديق، وإن كان موجودا حقيقة لكنه زائل حكما لأن الشارع جعل بعض المعاصي أمارة على عدم وجوده كالهزل المذكور، وكما لو سجد لصنم أو وضع مصحفا في قاذورة فإنه يكفر، وإن كان مصدقا لأن ذلك في حكم التكذيب، كما أفاده في شرح العقائد، وأشار إلى ذلك بقوله للاستخفاف، فإن فعل ذلك استخفاف واستهانة بالدين فهو أمارة عدم التصديق ولذا قال في المسايرة: وبالجملة فقد ضم إلى التصديق بالقلب، أو بالقلب واللسان في تحقيق الإيمان أمور الإخلال بها إخلال بالإيمان اتفاقا، كترك السجود لصنم، وقتل نبي والاستخفاف به، وبالمصحف والكعبة. وكذا مخالفة أو إنكار ما أجمع عليه بعد العلم به لأن ذلك دليل على أن التصديق مفقود، ثم حقق أن عدم الإخلال بهذه الأمور أحد أجزاء مفهوم الإيمان فهو حينئذ التصديق والإقرار وعدم الإخلال بما ذكر بدليل أن بعض هذه الأمور، تكون مع تحقق التصديق والإقرار، ثم قال ولاعتبار التعظيم المنافي للاستخفاف كفر الحنفية بألفاظ كثيرة، وأفعال تصدر من المنتهكين لدلالتها على الاستخفاف بالدين كالصلاة بلا وضوء عمدا بل بالمواظبة على ترك سنة استخفافا بها بسبب أنه فعلها النبي - صلى الله عليه وسلم - زيادة أو استقباحها كمن استقبح من آخر جعل بعض العمامة تحت حلقه أو إحفاء شاربه اهـ. قلت: ويظهر من هذا أن ما كان دليل الاستخفاف يكفر به، وإن لم يقصد الاستخفاف لأنه لو توقف على قصده لما احتاج إلى زيادة عدم الإخلال بما مر لأن قصد الاستخفاف مناف للتصديق.

الاختيار لتعليل المختار (ج:4، ص:150، ط: مطبعة الحلبي - القاهرة):

قال: (والكافر إذا صلى بجماعة أو أذن في مسجد، أو قال: أنا معتقد حقيقة الصلاة في جماعة يكون مسلما) لأنه أتى بما هو من خاصية الإسلام، كما أن الإتيان بخاصية الكفر يدل على الكفر، فإن من سجد لصنم أو تزيا بزنار أو لبس قلنسوة المجوس يحكم بكفره.

الفتاوى الهندية (ج:2، ص:257، ط:دار الفكر):

ومن يرضى بكفر نفسه فقد كفر، ومن يرضى بكفر غيره فقد اختلف فيه المشايخ رحمهم الله تعالى في كتاب التخيير في كلمات الكفر إن رضي بكفر غيره ليعذب على الخلود لايكفر، وإن رضي بكفره ليقول في الله ما لا يليق بصفاته يكفر، وعليه الفتوى كذا في التتارخانية.

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144111200499

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں