بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا پاجامہ پہننا سنت ہے؟


سوال

کیا پاجامہ پہننا سنت ہے؟ کیا مستقل پاجامہ پہننا سنت عمل کہلائے گا؟ 

جواب

رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کا استعمال کردہ لباس دیکھا جائے تو اس میں ازار (تہبند)، چادر اور قمیص کا ذکر تو عام ملتاہے، اور شلوار/ پاجامہ  کا استعمال صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ثابت ہے، اور رسول اللہ ﷺ سے بھی شلوار / پاجامہ خریدنا ثابت ہے، اور بعض روایات کے مقتضیٰ  سے  آپ ﷺ سے بھی استعمال ثابت ہے، نیز آپ ﷺ نے اسے پسند فرمایا کہ اس میں ستر کا لحاظ زیادہ ہے۔ بہرحال شلوار / پاجامہ کا استعمال سنت سے ثابت ہے، اولاً تو اس لیے کہ یہ رسول اللہ ﷺ سے براہِ راست بھی ثابت ہے، ثانیاً اس لیے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے جو عمل کیا اور رسول اللہ ﷺ نے دیکھ کر اس سے منع نہ کیاہو، بلکہ سکوت فرماکر اس کی تائید وتصویب کی ہو تو وہ بھی حدیث سے ثابت شدہ کہلاتاہے۔ نیز ہمیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پیروی کا بھی حکم ہے؛ لہٰذا شلوار / پاجامہ کو بھی سنت سے ثابت شدہ لباس کہا جائے گا۔

 الغرض جو شخص رسول اللہ ﷺ کا لباس اختیار کرنا چاہے تو قمیص یا چادر کے ساتھ تہبند پہننا آپ ﷺ کا معمول تھا، لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے  شلوار/ پاجامہ  پہننا ثابت ہے، اس لیے یہ بھی سنت سے ثابت شدہ لباس ہے، کم از کم خیر القرون مشہود لہا الخیر کے صلحاء کا لباس ہے۔ 
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضورِ اقدس ﷺکے پاس بارش کے دنوں میں بقیعِ غرقد کے مقام پر بیٹھا تھا ، گدھے پر سوار ایک عورت گزری،جس پر بوجھ تھا، ایک نشیبی زمین پر پہنچی، جہاں گڑھا تھا، تو گر پڑی آپ ﷺنے دیکھ کر چہرہ عورت کی طرف سے پھیر لیا، لوگوں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! یہ شلوار پہنے ہوئے ہے،  آپ  ﷺنے فرمایا: اے اللہ !میری امت کی ان عورتوں  کی مغفرت فرما جو شلوار پہنتی ہیں۔

تاہم پاجامہ چست نہیں ہونا چاہیے، کم از کم اتنا ڈھیلا ہو کہ اعضاء کی ساخت واضح نہ ہو۔

مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (5/ 122):
"وعن علي قال: «كنت قاعداً عند النبي صلى الله عليه وسلم  عند البقيع - يعني بقيع الغرقد - في يوم مطير، فمرت امرأة على حمار ومعها مكار، فمرت في وهدة من الأرض فسقطت، فأعرض عنها بوجهه، فقالوا: يا رسول الله إنها متسرولة؟ فقال: " اللهم اغفر للمتسرولات من أمتي» ".
فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144104200121

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں