بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا ووٹ نہ دینا گناہ کبیرہ ہے؟


سوال

حضرت مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ  نے لکھا ہے کہ ووٹ دینا شرعی گواہی کے مترادف ہے اور نہ دینا گناہ کبیرہ. کیا آج کے حالات میں بھی ووٹ دینا ضروری ہے اور نہ دینے والا گناہ گار ہوگا؟

جواب

ووٹ نہ دینا گناہ نہیں۔مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ نے سورۂ مائدہ کی آیت 8کے ذیل میں ووٹ دینے سے متعلق تفصیل لکھی ہے جس کاحاصل یہ ہے کہ ووٹ شہادت،سفارش اور وکالت تینوں حیثیتیں رکھتاہے لہذا ووٹ کا استعمال درست کیاجائے اور ایسے افراد کو ووٹ دیاجائے جو دینداری اور ملک وملت کے لحاظ سے مفید ہوں،مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ کی عبارت میں ووٹ نہ دینے کو گناہ کبیرہ کہنے کا تذکرہ ہمیں نہیں ملا،مزید تشفی کے لیے ذیل میں مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ کی ووٹ سے متعلق تحریر درج کی جاتی ہے:

''اسی طرح اسمبلیوں اور کونسلوں وغیرہ کے انتخاب میں کسی امیدوار کو ووٹ دینا بھی ایک شہادت ہے۔ جس میں ووٹ دہندہ کی طرف سے اس کی گواہی ہے کہ ہمارے نزدیک یہ شخص اپنی استعداد اور قابلیت کے اعتبار سے بھی اور دیانت و امانت کے اعتبار سے بھی قومی نمائندہ بننے کے قابل ہے۔اب غور کیجئے کہ ہمارے نمائندوں میں کتنے ایسے ہوتے ہیں جن کے حق میں یہ گواہی سچی اور صحیح ثابت ہوسکے۔ مگر ہمارے عوام ہیں کہ انہوں نے اس کو محض ہار جیت کا کھیل سمجھ رکھا ہے۔ اس لئے ووٹ کا حق کبھی پیسوں کے عوض میں فروخت ہوتا ہے، کبھی کسی دباؤ کے تحت استعمال کیا جاتا ہے، کبھی ناپائدار دوستوں اور ذلیل وعدوں کے بھروسہ پر اس کو استعمال کیا جاتا ہے۔اور تو اور لکھے پڑھے دینددار مسلمان بھی نااہل لوگوں کو ووٹ دیتے وقت کبھی یہ محسوس نہیں کرتے کہ ہم یہ جھوٹی گواہی دے کر مستحق لعنت و عذاب بن رہے ہیں ۔

        نمائندوں کے انتخاب کے لئے ووٹ دینے کی ازروئے قرآن ایک دوسری حیثیت بھی ہے جس کو شفاعت یا سفارش کہا جاتا ہے کہ ووٹ دینے والا گویا یہ سفارش کرتا ہے فلاں امیدوار کو نمائندگی دی جائے۔ اس کا حکم قرآن کریم کے الفاظ میں پہلے بیان ہوچکا ہے۔ ارشاد ہے:''ومن یشفع شفاعة حسنة یکن له نصیب منھا ...كفل منھا''یعنی جو شخص اچھی اور سچی سفارش کرے گا، تو جس کے حق میں سفارش کی ہے اس کے نیک عمل کا حصہ اس کو بھی ملے گا اور جو شخص بری سفارش کرتا ہے، یعنی کسی نااہل اور برے شخص کو کامیاب بنانے کی سعی کرتا ہے اس کو اس کے برے اعمال کا حصہ ملے گا۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ امیدوار اپنی کارکردگی کے پنج سالہ دور میں غلط اور ناجائز کام کرے گا، ان سب کا وبال ووٹ دینے والے کو بھی پہنچے گا۔

        ووٹ کی ایک تیسری شرعی حیثیت وکالت کی ہے کہ ووٹ دینے والا اس امیدوار کو اپنی نمائندگی کے لئے وکیل بناتا ہے۔ لیکن اگر یہ وکالت اس کے کسی شخصی حق کے متعلق ہوتی اور اس کا نفع نقصان صرف اس کی ذات کو پہنچتا تو اس کا یہ خود ذمہ دار ہوتا مگر یہاں ایسا نہیں ۔ کیونکہ یہ وکالت ایسے حقوق کے متعلق ہے جن میں اس کے ساتھ پوری قوم شریک ہے۔ اس لئے اگر کسی نااہل کو اپنی نمائندگی کے لئے ووٹ دے کر کامیاب بنایا تو پوری قوم کے حقوق کو پامال کرنے کا گناہ بھی اس کی گردن پر رہا۔

        خلاصہ یہ کہ ہمارا ووٹ تین حیثیتیں رکھتا ہے۔ ایک شہادت، دوسرے شفاعت اور تیسرے حقوق مشترکہ میں وکالت۔ تینوں حیثیتوں میں جس طرح نیک صالح قابل آدمی کو ووٹ دینا موجب ثواب عظیم ہے اور اس کے ثمرات اس کو ملنے والے ہیں ۔ اسی طرح نااہل یا غیر متدین شخص کو ووٹ دینا جھوٹی شہادت بھی ہے اور بری شفاعت بھی اور ناجائز وکالت بھی اور اس کے تباہ کن ثمرات بھی اس کے نامہ اعمال میں لکھے جائیں گے۔

        اس لئے ہر مسلمان ووٹر پر فرض ہے کہ ووٹ دینے سے پہلے اس کی پوری تحقیق کرلے کہ جس کو ووٹ دے رہا ہے وہ کام کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں اور دیانت دار ہے یا نہیں ، محض غفلت و بے پرواہی سے بلاوجہ ان عظیم گناہوں کا مرتکب نہ ہو ''۔(معارف القرآن 3/72)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201183

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں