بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا وبائی مرض (کرونا وائرس) سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیراختیارکرنا (مثلًا ماسک پہننا وغیرہ) توکل کے خلاف ہے؟


سوال

کسی ضرر، تکلیف، یا بیماری سے بچنے کے لئے اسباب اختیار کرنا کیا توکل کے خلاف ہے؟ جیسے کرونا سے بچاؤ کے لیے ماہرینِ طب کے بتائے ہوئے اقدامات مثلاً: ماسک، فاصلہ رکھنا اور ہاتھ ملانے سے اجتناب وغیرہ۔

جواب

واضح رہےاللہ تعالیٰ پر توکل یعنی بھروسہ کرنا انبیاءِ کرام علیہم السلام کے طریقہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا حکم بھی ہے، قرآن و حدیث میں توکل علیٰ اللہ کا بار بار حکم دیا گیا ہے، قرآن مجید میں ایک جگہ ارشاد ہے  کہ اللہ پر ایمان لانے والوں کو صرف اللہ ہی کی ذات پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ (سورۃ التوبۃ:51)

 اس اعتبار سے توکل کا معنی ہے: اللہ تعالی کی  ذات پر مکمل بھروسہ و اعتماد کرنا اور اس یقین کے ساتھ اسباب اختیار کرنا کہ دنیوی و اُخروی تمام معاملات میں نفع و نقصان کی مالک صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے،  ہر چھوٹی بڑی چیز اپنے وجود اور بقا کے لیے اللہ کی محتاج ہے، اللہ تعالی کے منشاء کے بغیر کوئی کام نہیں ہوسکتا، اگر کوئی شخص بیمار ہوجائے تو اُسے مرض سے شفایابی کے لیے دوا کا استعمال تو کرنا ہے، لیکن اس یقین کے ساتھ کہ جب تک اللہ تعالیٰ شفا نہیں دے گا، دَوا اَثر نہیں کرسکتی۔ یعنی دنیاوی اسباب کو اختیار کرنا توکل کے خلاف نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کا نظام یہی ہے کہ بندہ دنیاوی اسباب اختیار کرکے اللہ تعالیٰ کی ذات پر پورا بھروسا کرے، یعنی یہ یقین رکھے کہ جب تک حکم خداوندی نہیں ہوگا، اسباب اختیار کرنے کے باوجود شفا نہیں مل سکتی۔ غرض یہ ہے کہ اسباب اختیار کرنے کے ساتھ  اللہ تعالی پر بھروسہ کرنے کا حکم دیاگیا ہے۔  حدیث شریف میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

"ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا اونٹنی کو باندھ کر توکل کروں یا بغیر باندھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: باندھو اور اللہ پر بھروسہ کرو۔‘‘

(سنن ترمذی،کتاب صفۃ القیامۃ، ج:۴، ص:۶۷۰، طبع: داراحیاء التراث العربی، بیروت)

اسی طرح ایک اور حدیث میں حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ:

"اہلِ یمن بغیر سازوسامان کے حج کرنے کے لیے آتے اور کہتے کہ ہم اللہ پر توکل کرتے ہیں، لیکن جب مکہ مکرمہ پہنچتے تو لوگوں سے سوال کرنا شروع کردیتے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی سورۃ البقرۃ میں آیت: ۱۹۷ نازل فرمائی کہ:’’ حج کے سفر میں زادِ راہ ساتھ لے جایا کرو۔"

(صحيح البخارى، باب قول الله تعالى وتزودوا فإن خيرالزاد التقوى، رقم الحديث:1523)

حضوراکرمﷺ نے اللہ تعالی پر بھروسہ کرنے کے ساتھ ساتھ بیماری کا علاج کرنےکا حکم بھی  دیاہے، جیسے حدیث شریف میں ہے:

"آپﷺ نےفرمایا کہ ہر بیماری کی دوا ہے، جب بیماری کو اس کی اصل دوا میسر ہوجائے تو انسان اللہ کے حکم سے شفایاب ہوجاتا ہے۔"

(صحيح مسلم، باب لكل داء دواء، رقم الحديث:5705)

 ایک اور روایت میں ہے کہ:

"آپﷺ نے فرمایا:اللّٰہ تعالیٰ نے کوئی ایسی بیماری نازل نہیں کی جس کی شفا نازل نہ کی ہو۔"

(صحيح البخارى، باب ماأنزل الله داء الا انزل له شفاء، رقم الحديث:5678)

اسی طرح  ایک اور حدیث میں ہے کہ آپﷺ نے علاج معالجے کے متعلق صحابہ کرام کے ایک سوال کے جواب میں فرمایا:

"ہاں، اے اللّٰہ کے بندو! علاج معالجہ کروا لیا کرو، اللّٰہ تعالیٰ نے کوئی ایسی بیماری نہیں رکھی جس کی شفا نہ رکھی ہو، سوائے ایک بیماری کے۔ صحابہ کرام نے پوچھا: و ہ کون سی بیماری ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: وہ ہے بڑھاپا۔"

(صحيح مسلم، باب التداوي بالحبة السوداء، رقم الحديث:5728)

اسی کے ساتھ رسولِ اکرم ﷺ نے مہلک امراض سے بچاؤکے لیے حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کی تعلیم بھی فرمائی ہے۔ حدیث شریف میں حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:

"طاعون ایک صورتِ عذاب ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے تم سے پہلی امّتوں یا بنی اسرائیل پر مسلط فرمایا، سو جب کسی جگہ یہ بیماری پھیل جائے، تو وہاں کے لوگ اس بستی سے باہر نہ جائیں اور جو اس بستی سے باہر ہیں، وہ اس میں داخل نہ ہوں۔"

(صحيح مسلم،باب الطاعون، رقم الحديث:5733)

مسلم شریف میں حضرت عمررضی اللہ عنہ کے متعلق مذکور ہے کہ:

"شام کے سفر پر جارہے تھے، سَرغ نامی بستی سے ان کا گزر ہوا، سیدنا ابوعبیدہ بن جراحؓ اور ان کے ساتھیوں نے بتایا کہ اِس بستی میں طاعون کی وبا پھیل گئی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مہاجرین و انصار صحابہ کرام اور غزوۂ فتحِ مکہ میں شریک اکابرِ قریش سے مشورہ کیا، پھر اجتماعی مشاورت سے انہوں نے بستی میں داخل نہ ہونے کا فیصلہ کیا۔ سیدنا ابو عبیدہ بن جراحؓ نے کہا: امیر المومنین! اللہ کی تقدیر سے بھاگ رہے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: ہاں! اللہ کی تقدیر سے بھاگ کر اللہ کی تقدیر کی آغوش میں پناہ لے رہا ہوں۔ پھر سیدنا عبدالرحمن بن عوفؓ آئے اور انہوں نے کہا: اِس حوالے سے میرے پاس آپ ﷺ کی ہدایت موجود ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:

’’جب تم کسی بستی میں اِس وبا کے بارے میں سنو، تو وہاں نہ جاؤ اور اگر تم پہلے سے وہاں موجود ہو اور یہ وبا پھیل جائے تو وہاں سے بھاگ کر نہ جاؤ۔‘‘

یہ سن کر سیدنا عمر بن خطابؓ نے اللہ کا شکر ادا کیا اور اپنا سفر آگے کی طرف جاری رکھا۔

(صحیح مسلم، باب الطاعون، والطيرة، والكهانة ونحوها،رقم الحديث:5745، ط:دار إحياءالتراث العربى)

اسی طرح ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے جذام کے مرض میں مبتلا  ہونے والے سے بچنے کا حکم دیاہےفرمایا:

"جذام کے مریض سے بچو جیسے تم شیر سے بچتے ہو۔"

(صحيح البخارى، باب الجذام، رقم الحديث:5707)

اسی طرح عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بنوثقیف کے وفد میں ایک جذامی (جذام کے مرض میں مبتلا شخص) آپﷺ  سے بیعت کرنے آیا، تو  آپﷺ نے ان کو واپس کیا، اور فرمایا: ہم نے آپ سے بیعت لےلی۔

(صحيح مسلم، باب اجتناب المجذوم، رقم الحديث:5783)

لیکن دوسری طرف شریعت نے یہ ہدایت بھی دی ہے کہ کسی وبائی مرض میں مبتلا مریض سے نفرت نہ کی جائے؛ تاکہ اسے حوصلہ ملے اور اس کے دل میں احساسِ محرومی پیدا نہ ہو۔ جس کو آپ ﷺ نے اپنےفعل سے ثابت کیاہے، حدیث میں ہے:

"آپﷺ نے جذام کے مریض کو اپنے ساتھ بٹھا کر ایک برتن میں کھانا کھلایااور فرمایا کہ کھالیجیے اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے۔"

(سنن ابن ماجه، باب الجزام، رقم الحديث:3542)

رسول اللہ ﷺ کے اس طرح کرنے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ کسی موذی مرض میں مبتلا مریض سے احتیاط تو کی جائے، لیکن اس سے نفرت نہ کی جائے۔

ان احادیث سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو متعدی وبا سے بچنے کے لیے جائز حفاظتی تدابیر اختیار کرنا چاہیے اور جائز حفاظتی تدابیر کا اختیار کرنا توکل اور تقدیر پر ایمان کے منافی نہیں ہے، بلکہ توکّل کی حقیقت یہی ہے کہ اسباب کو اختیار کیا جائے، لیکن اَسباب کو موثِّر بِالذّات ماننے کے بجائے خداوندِ مسبّب الاسباب پر ایمان رکھا جائے، کیوں کہ اسباب میں تاثیر اسی نے پیدا کی ہے اور اسی کے حکم سے یہ مؤثر ہوتے ہیں، تقدیر پر ایمان کا تقاضا بھی یہی ہے، حضورِ اکرم ﷺ نے مختلف احادیث میں تعلیم دی ہے کہ ان بیماریوں کو مؤثر بالذات نہ سمجھاجائے، بلکہ مؤثر بالذات اللہ تعالی کی ذات ہے، جیسے کہ حدیث شریف میں ہے، حضوراکرمﷺ نے فرمایا:

"کوئی مرض (بذاتِ خود) مُتعدّی نہیں ہوتا۔"

(صحيح مسلم، باب لاعدوى ولاطيرة، رقم الحديث:5739)

شرح نووی میں ہے:

"بظاہر اِن حدیثوں میں تعارض ہے کہ کچھ روایات میں مریض سے بچنے کا حکم ہے (جس کا مطلب ہے کہ بیماری ایک شخص سے دوسرے شخص کی طرف منتقل ہوتی ہے) اور دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے جذام کے مریض کے ساتھ کھانا کھایا (جس کا مطلب ہے کہ بیماری ایک شخص سے دوسرے شخص کی طرف منتقل نہیں ہوتی، لہذا اِن حدیثوں میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ امراض میں متعدی ہونے کی تاثیر اللہ ہی کی پیدا کی ہوئی ہے، لیکن وہ اللہ کی مشیت سے مؤثر ہوتی ہے، کسی چیز میں کوئی تاثیر ذاتی نہیں ہوتی، اگر ایسا ہوتا تو دوا استعمال کرنے والا اور طبیب سے رجوع کرنے والا ہر مریض شفایاب ہوجاتا، لیکن ہمارا مشاہدہ ہے کہ ایسا نہیں ہوتا، پس جس کے لیے اللہ کا حکم ہوتا ہے، اس کے حق میں ڈاکٹر کی تشخیص درست اور دوا وسیلۂ شفا بن جاتی ہے۔ چنانچہ جب رسول اللہ ﷺ  نے مرض کے بذاتہ مْتعدی ہونے کی نفی فرمائی (کہ کوئی بھی مرض ایک شخص سے دوسرے شخص کی طرف منتقل نہیں ہوتا) تو ایک اَعرابی نے سوال کیا: یارسول اللہ! اونٹ ریگستان میں ہرن کی طرح اچھل کود کر رہے ہوتے ہیں کہ کوئی خارش زَدہ اونٹ ریوڑ میں گھس جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں سارے اونٹ خارش کی بیماری میں مبتلا ہوجاتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: پہلے اونٹ کو خارش کہاں سے لگی!  اِس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ  نے مرض کے متعدی ہونے کی نفی نہیں فرمائی، بلکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی طرف متوجہ فرمایا۔"

(شرح النووى، باب لاعدوى ولاطيرة، ج:14، ص:214، ط:دارإحياءالتراث العربى)

لہذا ہر بیماری اللہ کی طرف سے ہوتی ہے، اور اس بیماری کا علاج کرنا، اور اللہ تعالی پر بھروسہ کرتے ہوئے اس بیماری سے بچاؤ کی جائز احتیاطی تدابیر اختیار کرنا (مثلًا ماسک پہننا، باجماعت نماز کے علاوہ فاصلہ رکھنا، بار بار  ہاتھ ملانے سے گریز کرنا، چھینک کے وقت منہ پر کپڑا وغیرہ رکھنا) یہ سب توکل کے خلاف نہیں ہے۔

البتہ باجماعت نماز کے دوران صفوں میں فاصلہ رکھنا مکروہِ تحریمی ہے، لہٰذا جماعت کی نماز کے دوران صفوں میں فاصلہ نہ رکھا جائے۔ اور مصافحہ کرنے کو بیماری پھیلنے کا سبب سمجھنا بھی درست نہیں ہے، احتیاط الگ چیز ہے، اور عقیدہ جدا چیز ہے، کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جنہوں نے وبائی مرض سے متاثر ہونے والے سے مصافحہ کیا اور اسے مرض نہیں لگا، جب کہ بہت سے لوگ احتیاط کرنے کے باوجود اس مرض کا شکار ہوگئے۔ فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144112201171

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں