بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

 کیا میراث تقسیم ہی کرنا ضروری ہے؟


سوال

 کیا میراث تقسیم ہی کرنا ضروری ہے؟

جواب

میت کے متروکہ مال میں شرعی ورثا کا ان کے حصص کے مطابق حصہ ہوتا ہے، جب تک میراث تقسیم نہ کی جائے تب تک تمام ورثا اپنے حصص کے مطابق اس کے مالک ہیں  ، لہذا تمام ورثا اس مال سے نفع اٹھانے کے لیے باہمی رضامندی سےکوئی ترتیب  طے کرسکتے ہیں ، البتہ اگر کوئی شریک تقسیم کا مطالبہ کرے کہ اس کو اس کا حصہ الگ کرکے دیا جائےتومیراث  تقسیم کرنا شرعا لازم ہے ۔

عمومًا میراث کو جلدی تقسیم نہ کرنے کی وجہ سے باہمی اختلافات پیدا ہو جاتے ہیں اس لیے میراث جلدی  تقسیم کردینا بہتر ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين  (6/ 260) :
(وقسم) المال المشترك (بطلب أحدهم إن انتفع كل) بحصته (بعد القسمة وبطلب ذي الكثير إن لم ينتفع الآخر لقلة حصته) وفي الخانية: يقسم بطلب كل وعليه الفتوى، لكن المتون على الأول فعليها المعول (وإن تضرر الكل لم يقسم إلا برضاهم) لئلا يعود على موضوعه بالنقض.
في المجتبى: حانوت لهما يعملان فيه طلب أحدهما القسمة إن أمكن لكل أن يعمل فيه بعد القسمة ما كان يعمل فيه قبلها قسم و إلا لا.

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110201706

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں