بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا مسلمان کو قتل کرنے کے بعد عمرہ کرنے سے گناہ معاف ہوجاتا ہے؟


سوال

اگر کوئی حاجی مسلمان کسی مسلمان کاقتل کر دے، اور پھر عمرہ کر لے تو کیا اس کا گناہ معاف ہوجاتا ہے؟

جواب

کسی مسلمان کا ناحق قتل کرنا کبیرہ گناہوں میں شدید ترین گناہ ہے، اس پر قرآن وحدیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، مسلمان کو ناحق قتل کرنے میں جہاں اللہ  تعالیٰ کے حکم کی پامالی اور اس کی نافرمانی ہے جو حقوق اللہ ہے، وہاں اس میں ایک مسلمان کو قتل کرنا، اس سے اس کو اور اس کے لواحقین کو تکلیف پہنچانا یہ ”حقوق العباد“ سے تعلق رکھتا ہے، شریعت نے اس پر سزائیں مقرر کی ہیں،  کسی مسلمان کو قتل کرکے صرف عمرہ کرکے اس گناہ سے بری نہیں ہوا جاسکتا،  بلکہ قتلِ عمد کی صورت میں مقتول کے اولیاء کے مطالبہ پر قصاصاً اس کو بھی قتل کیا جائے گا، اسی طرح ورثاء کے دیت پر راضی ہونے یا قتلِ خطاء وغیرہ کی صورت میں دیت اور کفارہ وغیرہ بھی لازم ہوتا ہے۔

غرض یہ کہ پہلے مقتول کے اولیاء کا حق ادا کرکے ان سے معافی مانگ کر  یا صلح کی صورت میں معاف کرواکر،  اگر وہ شخص عمرہ پر جاکر وہاں صدق دل سے اپنے اس گناہ پر ندامت کے ساتھ اللہ رب العزت کے حضور گڑگرا کر معافی مانگے اور خوب توبہ واستغفار کرے اور قتل کا کفارہ (دو ماہ مسلسل روزے رکھنا)جن صورتوں میں لازم ہوتا ہےوہ ادا کرے تو   اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے یہی قوی امید ہے کہ اس کا گناہ معاف ہوجائے گا اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مقتول کو راضی کردیں گے۔

قرآن مجید میں ہے :

{وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ أَنْ يَقْتُلَ مُؤْمِنًا إِلَّا خَطَأً وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ إِلَّا أَنْ يَصَّدَّقُوا فَإِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَكُمْ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ وَإِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِيثَاقٌ فَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ وَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ تَوْبَةً مِنَ اللَّهِ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا (92) وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا (93)} [النساء: 92، 93]

ترجمہ : اور کسی مؤمن کی شان نہیں کہ وہ کسی مؤمن کو (ابتداءً) قتل کرے،  لیکن غلطی سے، اور جو شخص کسی مؤمن کو غلطی سے قتل کردے تو اس پر ایک مسلمان غلام یا لونڈی کا آزاد کرنا ہے اور خون بہا ہے جو اس کے خاندان والوں کو حوالہ کردیا جائے، مگر یہ کہ وہ لوگ معاف کردیں،  اور اگر وہ ایسی قوم سے ہو تمہارے مخالف ہیں اور وہ شخص خود مؤمن ہے تو ایک غلام یا لونڈی مسلمان کا آزاد کرنا، اور اگر وہ ایسی قوم سے ہو کہ تم میں اور ان میں معاہدہ ہو تو خون بہا ہے جو اس کے خاندان والوں کو حوالہ کردیا جائے اور ایک غلام یا لونڈی مسلمان کا آزاد کرنا،  پھر جس شخص کو نہ ملے تو متواتر دو ماہ کے روزے ہیں بطریق توبہ کے جو اللہ کی طرف سے (مقرر ہوئی) ہے اور اللہ تعالیٰ بڑے علم والے بڑی حکمت والے ہیں۔ (92) 

 اور جو شخص کسی مسلمان کو قصداً قتل کرڈالے تو اس کی سزا جہنم ہے کہ ہمیشہ ہمیشہ کو اس میں رہنا ہے  اور اس پر اللہ تعالیٰ غضب ناک ہوں گے اس کو اپنی رحمت سے دور کردیں گے اور اس کے لیے بڑی سزا کا سامان کریں گے۔ (93)۔(از بیان القرآن )  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200361

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں