بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا مساجد میں بچوں کو قرآنی تعلیم دینا جائز ہے؟


سوال

مسجد میں امام کے علاوہ کوئی دوسرا شخص بچوں کو قرآنی تعلیم دے سکتا ہے، یعنی کہ مدرسہ کے لیے استعمال کر سکتا ہے جب کہ امام بھی موجود  ہو؟

جواب

کتبِ فقہ میں لکھا ہے کہ مسجد میں بلاضرورت درس وتدریس کاکام کرنا مکروہ ہے اور ضرورت کی وجہ سے مسجد کے اندر تعلیم و تعلم کی اجازت ہے، فقہاءِ کرام نے یہ بھی لکھا ہے کہ گرمی سے بچنے کے لیے ضرورۃً مسجد میں درس دینا بلاکراہت جائز ہے، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر دینی تعلیم اور قرآنِ کریم کی تعلیم کے لیے کوئی جگہ نہ ہو تو  مسجد میں تعلیم دینا بھی ایک اہم ترین ضرورت ہے۔ البتہ فتاویٰ بزازیہ میں اس بات کہ بھی صراحت ملتی ہے کہ مسجد میں اجرت اور فیس لے کر درس دینا مکروہ ہے۔  پس  دینی تعلیم کے لیے مسجد کے علاوہ جگہ میسر نہیں ہے تو بلااجرت مسجد میں بچوں کو پڑھانے میں کوئی حرج نہیں۔مسجد میں بچوں کو امام کے علاوہ کوئی شخص بھی اسی شرط کے مطابق پڑھاسکتا ہے، البتہ ایسا انتظامیہ کی اجازت سے ہونا چاہیے۔

"وتعلیم الصبیان فیه بلاأجر و بالأجر یجوز". ( البزازیة،کتاب الکراهیة، الفصل الأول، نوع في المسجد، زکریا جدید۳/۲۰۱، وعلی هامش الهندیة، ۶/۳۵۷)

"معلم الصبیان بأجر لو جلس فیه لضرورة الحر لا بأس به، وکذا التعلیم إن بأجر کره إلا للضرورة، وإن حسبة لا". ( البزازیة،زکریاجدید، ۱/۵۵، وعلی هامش الهندیة، ۴/۸۲)

"أما الکاتب ومعلم الصبیان فإن کان بأجر یکره وإن کان حسبةً فقیل: لایکره، والوجه ماقاله إبن الهمام: أنه یکره التعلیم إن لم یکن ضرورةً؛ لأن نفس التعلیم ومراجعة الأطفال لایخلو عما یکره في المسجد". (حلبي کبیر، أشرفیه /۶۱۱، ۶۱۲)

"ویکره أن یخیط في المسجد؛ لأنه أعد للعبادة دون الاکتساب، کذا الوراق والفقیه إذا کتب بأجرة، وأما المعلم إذا علم الصبیان بأجرة، وإن فعلوا بغیر أجرة فلا بأس به". (الخانیة، کتاب الطهارة، فصل في المسجد، زکریا جدید۱/۴۳، وعلی هامش الهندیة ۱/۶۵، ۶۶)

"معلم جلس في المسجد أو ورّاق کتب في المسجد، فإن کان المعلم یعلم بالأجروالورّاق یکتب لغیره، یکره لهما إلا أن یقع لهما الضرورة".  (التاتار خانیة، زکریا ۱۸/۶۶، رقم: ۲۸۴۷)

"أما المعلم الذي یعلم الصبیان بأجر إذا جلس في المسجد یعلم الصبیان لضرورة الحر أو غیره لایکره. وفي نسخة الإمام: جعل مسألة المعلم کمسألة الکاتب". (الهندیة، الصلاة، فصل کره غلق باب المسجد، زکریا قدیم ۱/۱۱۰، جدید۱/۱۶۹)

"ومعلم الصبیان القرآن کالکاتب إن کان لأجر لا وحسبة لا بأس به". (اعلاء السنن ۵/۱۳۳، دارالکتب العلمیۃ بیروت۵/۱۷۹، الموسوعۃ الفقہیۃ ۳/۲۰۶، فتح القدیر کوئٹہ ۱/۳۶۹، زکریا ۱/۴۳۵، دارالفکر۱/۴۲۲، خلاصۃ الفتاویٰ اشرفیہ ۱/۲۲۹، حلبی کبیر،  سہیل اکیڈمی لاہور/۶۱۲)   فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200238

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں