بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حج میں قربانی کے پیسے حکومت یا نجی ادارے کو دینے کے بعد حاجی پر الگ سے بھی کوئی قربانی ہوتی ہے ؟


سوال

موجودہ دور میں حاجیوں سے قربانی کے پیسے لے لیے جاتے ہیں جسکی قربانی وہاں ہوجاتی ہے۔اب حاجی کی طرف سے اسکے علاہ بھی قربانی ہے یانہیں۔تفصیل سے بیان کردیں۔شکریہ

جواب

حج قران یا حج تمتع کرنے کی صورت میں دم شکر کے طور پر ایک حصہ قربانی کرنا یا ایک دنبہ، یا بھیڑ، یا بکری حرم کی حدود میں ذبح کرنا لازم ہوتا ہے، یہ اس قربانی کے علاوہ ہے جو ہر سال اپنے وطن میں کی جاتی ہے، دونوں الگ الگ ہیں،عید والی قربانی کا حج والی  قربانی سے کوئی تعلق نہیں،موجودہ دور میں حاجیوں سے جو قربانی کے پیسے لے کر وہیں حرم میں حاجی کی طرف سے قربانی کردی جاتی ہے وہ حج قران یا تمتع والی قربانی ہوتی ہے، اس سے حاجی کی حج قران یا تمتع والی قربانی تو ہوجاتی ہے، لیکن اگر حاجی کے ذمہ عید والی قربانی بھی واجب ہو تو وہ الگ سے کرنی پڑے گی۔

  حاجی کے لئے عید والی قربانی واجب ہونے یا نہ ہونے کا ضابطہ یہ ہے کہ اگر حاجی شرعی مسافر ہو تو اس پر قربانی واجب نہیں، البتہ اگر مسافر حاجی بھی اپنی خوشی سے عید والی قربانی کرے گا تو اس پر ثواب ملے گا لیکن لازم نہیں ہے، اور اگر حاجی مقیم ہے اور اس کے پاس حج کے اخراجات کے علاوہ نصاب کے برابر زائد رقم موجود ہے تو اس پر قربانی کرنا واجب ہوگی۔

واضح رہے کہ اگر حاجی ایام حج میں پندرہ دن یا اس سے زیادہ مکہ میں قیام کی نیت سے ٹہرے اور منیٰ روانہ ہونے سے پہلے (یعنی ۷ ذی الحجہ تک ) پندرہ دن مکمل ہو رہے ہوں تو یہ حاجی عید کے دنوں میں مقیم شمار ہوگا اور صاحب استطاعت ہونے کی صورت میں اس پر دم شکر کے علاوہ عید کی  قربانی بھی واجب ہوگی لیکن اگر  منیٰ روانہ ہونے سے پہلے مکہ میں پندرہ دن پورے نہ ہورہے ہوں تو اقامت کی نیت کا اعتبار نہیں ہوگا، لہٰذا یہ حاجی مقیم نہیں کہلائے گا ، بلکہ مسافر شمار ہوگا، چنانچہ اس حاجی پر  دم شکر کے علاوہ عید کی قربانی واجب نہیں ہوگی۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 174)

 قال أصحابنا: إنه دم نسك وجب شكرا لما وفق للجمع بين النسكين بسفر واحد

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 63)

ومنها الإقامة فلا تجب على المسافر؛ لأنها لا تتأدى بكل مال ولا في كل زمان بل بحيوان مخصوص في وقت مخصوص والمسافر لا يظفر به في كل مكان في وقت الأضحية فلو أوجبنا عليه لاحتاج إلى حمله مع نفسه وفيه من الحرج ما لا يخفى أو احتاج إلى ترك السفر وفيه ضرر فدعت الضرورة إلى امتناع الوجوب بخلاف الزكاة؛ لأن الزكاة لا يتعلق وجوبها بوقت مخصوص بل جميع العمر وقتها فكان جميع الأوقات وقتا لأدائها، فإن لم يكن في يده شيء للحال يؤديها إذا وصل إلى المال، وكذا تتأدى بكل مال فإيجابها عليه لا يوقعه في الحرج، وكذلك صدقة الفطر لأنها تجب وجوبا موسعا كالزكاة، وهو الصحيح.

وعند بعضهم وإن كانت تتوقف بيوم الفطر لكنها تتأدى بكل مال فلا يكون في الوجوب عليه حرج وذكر في الأصل وقال: ولا تجب الأضحية على الحاج؛ وأراد بالحاج المسافر فأما أهل مكة فتجب عليهم الأضحية وإن حجوا

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 125)

(فيقصر إن نوى) الإقامة (في أقل منه) أي في نصف شهر (أو) نوى (فيه  لكن في غير صالح) أو كنحو جزيرة أو نوى فيه لكن (بموضعين مستقلين كمكة ومنى) فلو دخل الحاج مكة أيام العشر لم تصح نيته لأنه يخرج إلى منى وعرفة فصار كنية الإقامة في غير موضعها وبعد عوده من منى تصح كما لو نوى مبيته بأحدهما أو كان أحدهما تبعا للآخر بحيث تجب الجمعة على ساكنه للاتحاد حكما

الفتاوى الهندية (1/ 139)

ولا يزال على حكم السفر حتى ينوي الإقامة في بلدة أو قرية خمسة عشر يوما أو أكثر، كذا في الهداية.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ونية الإقامة إنما تؤثر بخمس شرائط: ترك السير حتى لو نوى الإقامة وهو يسير لم يصح، وصلاحية الموضع حتى لو نوى الإقامة في بر أو بحر أو جزيرة لم يصح، واتحاد الموضع والمدة، والاستقلال بالرأي، هكذا في معراج الدراية.۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وإن نوى الإقامة أقل من خمسة عشر يوما قصر، هكذا في الهداية. فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200122

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں