بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا قبرستان پر مسجد بنا سکتے ہیں؟


سوال

گزارش یہ ہے کہ ہمارے محلے میں ایک مسجدقبرستان کہ اوپر میں تعمیر کی گی ہےقبرستان میں کچھ قبریں پہلے سے موجود ہیں اور ابھی مزید قبریں  تیارہو رہی ہیں ،جس خاندان کا قبرستان ہے انہوں نے اجازت دی ہے پر قبرستان وقف نہیں کیا، اس سلسلے میں ہمارے پاس حرم پاک کا فتویٰ موجود ہے جس میں وضاحت کے ساتھ ممانعت کی گئی ہے لیکن جو ضلعی خطیب ہیں انہوں نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ یہ جائز ہے اور اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے آپ سے التماس ہے اس سلسلے میں ہماری رہنمائی فرمائیں ؟

جواب

واضح رہے کہ اگر قبرستان وقف نہ ہو اور قبر والی جگہ مالک زمین نے مسجد کو دے دی ہو اور قبریں بے نشان اور اتنی بوسیدہ ہوگئی ہوں کہ مردے گل کر مٹی بن جانے کا یقین ہوچلا ہو تو ایسی جگہ کو مسجد میں شامل کرنا درست ہے، اور وہاں نماز ادا کرنے میں کوئی حرج نہ ہوگا، اور اس میں مردوں کی بے حرمتی بھی نہیں، البتہ اگر قبرستان وقف ہو، اور اس میں مردے دفن بھی کئے جاتے ہوں تو ایسی صورت میں اس قبرستان کو مسجد میں شامل کرنے کی اجازت نہ ہوگی، پس مسئولہ صورت میں چونکہ قبرستان وقف نہیں تھا لہذا اگر قبریں بوسیدہ ہوچکی ہوں، اور نام نشان مٹ گیا ہو تو اس صورت میں اس پر مسجد بنانا درست ہوگا، بصورت دیگر اجازت نہ ہوگی۔

عمدة القاري شرح صحيح البخاري میں ہے:

وَقَالَ الْبَنْدَنِيجِيّ: وَالْمرَاد أَن يسوى الْقَبْر مَسْجِدا فيصلى فَوْقه، وَقَالَ: إِنَّه يكره أَن يبْنى عِنْده مَسْجِد فيصلى فِيهِ إِلَى الْقَبْر، وَأما الْمقْبرَة الداثرة إِذا بني فِيهَا مَسْجِد ليصلى فِيهِ فَلم أر فِيهِ بَأْسا، لِأَن الْمَقَابِر وقف، وَكَذَا الْمَسْجِد، فمعناها وَاحِد. وَقد ذكرنَا عَن قريب مَذَاهِب الْعلمَاء فِي الصَّلَاة على الْقَبْر.( ٤ /١٧٤)

وفيه ايضا:

فَإِن قلت: هَل يجوز أَن تبنى على قُبُور الْمُسلمين؟ قلت: قَالَ ابْن الْقَاسِم: لَو أَن مَقْبرَة من مَقَابِر الْمُسلمين عفت فَبنى قوم عَلَيْهَا مَسْجِدا لم أر بذلك بَأْسا، وَذَلِكَ لِأَن الْمَقَابِر وقف من أوقاف الْمُسلمين لدفن موتاهم لَا يجوز لأحد أَن يملكهَا، فَإِذا درست وَاسْتغْنى عَن الدّفن فِيهَا جَازَ صرفهَا إِلَى الْمَسْجِد، لِأَن الْمَسْجِد أَيْضا وقف من أوقاف الْمُسلمين لَا يجوز تملكه لأحد، فمعناهما على هَذَا وَاحِد. وَذكر أَصْحَابنَا أَن الْمَسْجِد إِذا خرب ودثر وَلم يبْق حوله جمَاعَة، والمقبرة إِذا عفت ودثرت تعود ملكا لأربابها، فَإِذا عَادَتْ ملكا يجوز أَن يبْنى مَوضِع الْمَسْجِد دَارا وَمَوْضِع الْمقْبرَة مَسْجِدا وَغير ذَلِك، فَإِذا لم يكن لَهَا أَرْبَاب تكون لبيت المَال.( ٨٤ - (بابٌ هَلْ تُنْبَشُ قُبُورُ مُشْرِكِي الجَاهِليَّةِ وَيُتَّخَذُ مَكانُهَا مَسَاجِدَ ، ٤ / ١٧٩)۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008201803

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں