بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 شوال 1445ھ 17 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا عورت لعان کرسکتی ہے؟


سوال

کیا عورت لعان کر سکتی ہے اگر شوہر کو کسی اور کے ساتھ دیکھے تو؟

جواب

اگر بیوی اپنے شوہر کو زنا میں مبتلا دیکھے تو جب تک اس کے پاس چار گواہ نہ ہوں وہ  اپنے شوہر کے خلاف حدِ زنا کا دعوی نہ کرے، ورنہ شوہر کے مطالبے پر اسے حدِ قذف لگ سکتی ہے، "لعان" کا حکم شوہر کے بیوی پر (شہادتِ معتبرہ کے بغیر) زنا کا الزام لگانے کے ساتھ خاص ہے، بیوی کے شوہر پر (شہادت معتبرہ کے بغیر)  زنا کا الزام لگانے سے لعان واجب نہیں ہوسکتا ، کیوں کہ اصل ضابطہ تو یہی ہے کہ  جو بھی کسی دوسرے پر (شہادتِ معتبرہ کے بغیر) زنا کا الزام لگائے اس پر حدِ قذف لگائی جائے گی، لیکن شوہر کو اس حکم سے چند وجوہ کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے استثنا دیا ہے اور اس کے لیے اس صورت میں "لعان" کا حکم نازل کیا ہے، لہٰذا اگر بیوی اپنے شوہر کے  زنا میں مبتلا ہونے کے گناہ پر پردہ رکھتے ہوئے اس کے ساتھ زندگی گزار نے کا حوصلہ رکھتی ہے تو اچھی بات ہے اور اگر علیحدگی  چاہے تو اس سے طلاق یا خلع لے کر علیحدہ ہوجائے، نیز اگر اس کے زنا پر چار گواہ  ہوں تو ان کی گواہی کے ذریعہ اپنے شوہر پر حدِ زنا کا دعوی بھی کر سکتی ہے۔

الموسوعة الفقهية الكويتية (2 / 340):

"وأما في أسباب الحدود من الزنا والسرقة وشرب الخمر فالستر أمر مندوب إليه؛ لقول النبي صلى الله عليه وسلم: من ستر مسلماً ستره الله في الدنيا والآخرة". ؛ ولأنه مأمور بدرء الحد. وصرح الحنفية بأن الأولى الستر، إلا إذا كان الجاني متهتكاً، وبمثل ذلك قال المالكية".

فقه السنة (2 / 449):

"سقوط الحد:

ويسقط حد القذف بمجئ القاذف بأربعة شهداء، لأن الشهداء ينفون عنه صفة القذف الموجبة للحد، ويثبتون صدور الزنا بشهادتهم.

فيقام حد الزنا على المقذوف؛ لأنه زان. وكذلك إذا أقر المقذوف بالزنا واعترف بما رماه به القاذف. وإذا قذفت المرأة زوجها؛ فإنه يقام عليها الحد، إذا توفرت شروطه بخلاف ما إذا قذفها هو ولم يقم عليها البينة؛ فإنه لا يقام عليه الحد، وإنما يتلاعنان، وقد تقدم ذلك في باب اللعان".

تفسير القرطبي (12 / 190):

"الثامنة عشرة- قال ابن القصار: إذا قالت امرأة لزوجها أو لأجنبي: يا زانيه- بالهاء-، وكذلك الأجنبي لأجنبي، فلست أعرف فيه نصاً لأصحابنا، ولكنه عندي يكون قذفاً وعلى قائله الحد، وقد زاد حرفاً، وبه قال الشافعي ومحمد بن الحسن. وقال أبو حنيفة وأبو يوسف: لا يكون قذفاً. واتفقوا أنه إذا قال لامرأته: يا زان أنه قذف. والدليل على أنه يكون في الرجل قذفاً، هو أن الخطاب إذا فهم منه معناه ثبت حكمه، سواء كان بلفظ أعجمي أو عربي. ألا ترى أنه إذا قال للمرأة: زنيت (بفتح التاء) كان قذفاً؛ لأن معناه يفهم منه، ولأبي حنيفة وأبي يوسف أنه لما جاز أن يخاطب المؤنث بخطاب المذكر لقوله تعالى:" وقال نسوة " صلح أن يكون قوله: يا زان للمؤنث قذفاً. ولما لم يجز أن يؤنث فعل المذكر إذا تقدم عليه لم يكن لخطابه بالمؤنث حكم، والله أعلم".

حجة الله البالغة (2 / 218):

" لِأَن الزِّنَا إِنَّمَا يكون فِي الْخلْوَة، وَيعرف الزَّوْج مَا فِي بَيته وَيقوم عِنْده من المخايل مَا لَا يُمكن أَن يعرفهُ غَيره، وَامْتنع أَن يَجْعَل الزَّوْج بِمَنْزِلَة سَائِر النَّاس يضْربُونَ الْحَد؛ لِأَنَّهُ مَأْمُور شرعاً وعقلاً بِحِفْظ مَا فِي حيزه من الْعَار والشنار، مجبول على غَيره أَن يزدحم على مَا فِي عصمته، وَلِأَن الزَّوْج أقْصَى مَا يقطع بِهِ الرِّيبَة وَيطْلب بِهِ تحصين فرجهَا، فَلَو كَانَ هُوَ فِيمَا يؤاخذها بِهِ بِمَنْزِلَة سَائِر النَّاس ارْتَفع الْأمان، وانقلبت الْمصلحَة مفْسدَة، وَكَانَ النَّبِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لما وَقعت الْوَاقِعَة متردداً، تَارَةً لَا يقْضِي بِشَيْءٍ لأجلهَذِه المعارضات، وَتارَةً يستنبط حكمه مِمَّا أنزل الله عَلَيْهِ من الْقَوَاعِد الْكُلية، فَيَقُول: " الْبَيِّنَة أَو حداً فِي ظهرك! حَتَّى قَالَ الْمُبْتَلي: وَالَّذِي بَعثك بِالْحَقِّ إِنِّي لصَادِق، ولينزل الله مَا يُبرئ ظهري من الْحَد، ثمَّ أنزل الله تَعَالَى آيَة اللّعان".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200155

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں