بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا عورت اور مرد کے سر کے مسح میں فرق ہے؟


سوال

کیا عورت اور مرد کے سر کے مسح میں کوئی فرق ہے؟ با حوالہ جواب عنایت فرماکر مشکور فرمائیں!

جواب

عورت اور مرد کے سر کے مسح میں کوئی فرق نہیں، دونوں کے لیے حکم یک ساں ہے، یعنی چوتھائی سر کا مسح کرنا واجب ہے جب کے پورے سر کا مسح کرنا مسنون ہے، نیز مسح صرف انہی بالوں پر کرنے کا حکم ہے جو سر پر ہوں وہ بال جو گدی سے نیچے لٹکے ہوئے ہوں خواہ مرد کے ہوں یا عورت کے ان پر مسح کرنے کا حکم نہیں اور صرف ان بالوں پر مسح کرنے سے مسح کی فرضیت بھی ساقط نہیں ہوگی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و المفروض في مسح الرأس مقدار الناصية، و المختار في مقدار الناصية ربع الرأس ... و إن كان بعض الرأس محلوقاً فمسح علي غير المحلوق جاز ... و منها: (أي من سنن الوضوء) مسح كل الرأس مرة". (كتاب الطهارة، الباب الأول في الوضوء، الفصل الأول و الثاني، ١/ ٥- ٧، ط: رشيدية)

كتاب الفقه علي المذاهب الأربعة میں ہے:

 "و من كان شعر رأسه طويلاً نازلاً علي جبهته أو عنقه، فمسح عليه فإنه لا يجزئه؛ لأن الفرض هو أن يمسح نفس ربع الرأس، فإن كانت محلوقةً، فالأمر ظاهر، وإن كان عليها شعر فإنه يجب عليه أن يمسح علي الشعر النابت في نفس الرأس، فلا بد أن يكون الشعر الممسوح نابتاً على جزء من رأسه، فإن كان بعض رأسه محلوقاً، و بعضها غير محلوق، فأنه يصح أن يمسح علي الربع الذي يختاره". (كتاب الطهارة، فرائض الوضوء، ١/ ٦١، ط: مكتبة الحقيقة)

فتاوی شامی میں ہے:

"و الأظهر أن يضع كفيه و أصابعه علي مقدم راسه و يمدها إلى القفاء على وجه يستوجب جميع الرأس ثم يمسح أذنيه بأصبعه". (كتاب الطهارة، ١/ ١٢١، ط: سعيد) فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144004200347

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں