بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا علماء آزادی کے مخالف تھے؟


سوال

بہت سے لوگ یہ سوالات کرتے ہیں کہ پاکستان کی آزادی میں چند علماء تھے جو آزادی پاکستان کے مخالف تھے یہ  مخالفت کس وجہ سے تھی؟ اسی وجہ سے ہم پر مخالفینِ پاکستان کا فتوی دے رہے ہیں تو ہم ان کو کیا جواب دیں؟ 

جواب

پہلے تو یہ واضح رہنا ضروری ہے کہ تحریکِ آزادی  ہند کے بارے میں علماء کے درمیان  کوئی اختلاف نہیں تھا،  اس دور کے تمام علماء اس پر متفق تھے کہ ہندوستان کو انگریز سے آزاد ہونا چاہیے اور یہاں کی حکومت یہاں کے باشندوں کے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔ البتہ جزوی طور پر  یہ اختلاف تھا کہ کیا آزادی کے بعد ہندوستان کو تقسیم ہونا چاہیے یا نہیں؟ گویا اختلاف، آزادی ہند میں نہیں تقسیمِ ہند کے مسئلے پر تھا اور اس حوالے سے علماء  کی دونوں آراء تھیں۔

ہماری دانست میں دونوں طرف کے علماء  کی رائے دیانت دارانہ  اور اجتہادی بنیادوں پر تھی، اس لیے کسی بھی طبقے کی رائے سے اختلاف تو کیا جاسکتا ہے، لیکن کسی بھی جانب کی توہین وتحقیر درست نہیں۔ بعض عناصر حقائق کو نگاہوں سے اوجھل رکھ کر  وقتاً فوقتاً ایسی بحثوں کو از سر ہوا دیتے رہتے ہیں، جس کا حاصل ملک کی نظریاتی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے اور انتہائی ناعاقبت اندیشی کا ثبوت بہم پہنچانے کے سوا کچھ نہیں ہے، ایسے لوگوں سے ہوشیار اور چوکنا رہنے کی ضرورت ہے، تاکہ ہمارا یہ ملکِ عزیز  کسی خلفشار کا شکار  نہ ہو۔

نیز یہ بحثیں تفصیل طلب ہیں، ان پر مستقل لٹریچر دست یاب ہے، مناسب ہوگا کہ اس موضوع سے متعلق تاریخی کتابوں کو دیکھ لیا جائے،  ویب سائٹ کا یہ فورم ایسے مباحث کا متحمل نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144012201830

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں