بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا صحابہ کے فتاوی سے صرف نظر کیا جاتا ہے۔


سوال

کیا وجہ ہے کہ کسی مسئلہ کی دلیل کے لیے عموماً کبھی کسی صحابی کے فتوے کو بیان نہیں کیا جاتا ، میں نے آج تک کسی مسئلہ کی دلیل کے لیے کسی صحابی کے کسی فتوے کا کوئی حوالہ نہیں دیکھا نہ سنا ۔ (یہ میری کم علمی بھی ہو سکتی ہے) ، حالاں کہ میں نے پڑھا ہے کہ مصنف ابن ابی شیبہ ، مصنف عبدالرزاق اور اس زمانہ کی دیگر کچھ کتب میں صحابہ کرام کے فتاوے بہت کثرت سے موجود ہیں۔ اور اگر صحابی کے فتوے کو کہیں کہیں بیان کیا بھی گیا ہے تو اتنا کم کیوں؟ جب کہ صحابی کا فتویٰ تو بہت مظبوط دلیل ہونی چاہیے۔

جواب

واضح رہے کہ فقہاءِ کرام (جو کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانے میں موجود تھے یا ان کے زمانے کے انتہائی قریب تھے اور ان کے فتاوی کو جانتے تھے اور انہی کے تلامذہ سے فیض یافتہ تھے) نے غیر منصوصی احکام کا استخراج   رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین  اور صحابہ کرام  رضوان اللہ علیہم اجمعین کے فتاوی کو سامنے رکھ کر  ہی کیا ہے،  اور پھر ان مسائل کے احکام کو  مسلمان خلفاء نے سلطنتِ اسلامیہ کے دستور کا حصہ بنادیا اور سلطنتِ اسلامیہ میں اسی کے مطابق فیصلے دیے جاتے رہے؛ لہذا آج کے دور میں جو فتاوی بطورِ حوالہ نقل کیے جاتے ہیں یہ وہی فتاوی ہیں جو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے فتاوی سے مستنبط ہیں، نیز نئے پیش آمدہ مسائل کے حل کے لیے نصوصِ شرعیہ کو بنیاد بنایا جاتا ہے ، انہی پر قیاس کیا جاتا ہے ؛ لہذا یہ سمجھنا کہ صحابہ کے فتاوی کو پسِ پشت ڈال دیا گیا ہے یا ان سے صرف نظر کیا گیا ہے،درست نہیں ہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200237

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں