بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا شہیدِ حقیقی اور حکمی دونوں فضائلِ شہید کے مستحق ہوں گے؟


سوال

شہید  کی دو اقسام ہیں: حقیقی اور حکمی۔  میر ا سوال یہ ہے کہ شہید کے بارے میں جو فضائل قرآن و حدیث میں وارد ہوئے ہیں ان کا اطلاق صرف حقیقی پر کیا جائے گا یا حکمی شہید بھی ان فضائل میں شامل ہے?

جواب

فقہاءِ کرام نے شہید  کی دو قسمیں بیان کی ہیں:  حقیقی اور حکمی۔ اور درحقیقت یہ دو قسمیں دنیاوی اَحکام کے اعتبار سے ہیں؛ چناں چہ ’’حقیقی شہید‘‘  وہ کہلاتا ہے جس پر شہید کے دنیاوی احکام  لاگو ہوتے ہیں، یعنی اس کو غسل وکفن نہیں دیا جائے گا، اور جنازہ پڑھ کراُن ہی کپڑوں میں دفن کر دیا جائے جن میں شہید ہوا ہے،  مثلاً اللہ کے راستہ میں شہید ہونے والا، یا کسی کے ہاتھ ناحق قتل ہونے والا بشرطیکہ وہ بغیر علاج معالجہ اور وصیت وغیرہ اسی جگہ دم توڑجائے اور اس پر زخمی ہونے کے بعد دم توڑنے تک ایک نماز کا وقت نہ گزرا ہو۔ اور ’’حکمی شہید‘‘  وہ کہلاتا ہے جس کے بارے میں احادیث میں شہادت کی بشارت وارد ہوئی ہو، ایسا شخص آخرت میں تو شہیدوں کی فہرست میں شمار کیا جائے گا، البتہ دنیا میں اس پر عام میتوں والے اَحکام جاری ہوں گے، یعنی اس کو غسل دیا جائے گا، اور کفن بھی دیا جائے گا۔

جہاں تک اجر و ثواب کی بات ہے اس کی بنیاد پر یہ دو قسمیں نہیں ہیں۔  بعض شہیدِ حکمی اجر و ثواب میں شہیدِ حقیقی کے ساتھ شامل ہوں گے، اور بعض شہیدِ حکمی کا اجر شہیدِ حقیقی سے کم بھی ہوسکتاہے۔ مثلاً جو شخص میدانِ جہاد میں کفار سے لڑتے ہوئے جان دے دے، لیکن دم توڑنے سے پہلے اسے علاج و معالجہ وغیرہ کی سہولت حاصل ہوجائے، یا اپنے علاقے میں ظلماً اس پر قاتلانہ حملہ ہوجائے اور وہ زخمی ہوکر علاج و غذا سے مستفید ہو اور پھر جان دے دے تو اس طرح کی صورتوں میں وہ حقیقی شہید کے درجات کا ہی مستحق ہوگا، مثلاً: حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت وغیرہ۔

جب کہ شہیدِ حکمی کی بعض صورتیں وہ ہیں جو عام مسلمان اموات کے مقابلے میں فضیلت کی وجہ سے شہید کہلائے، مثلاً: طاعون میں یا پیٹ کے درد میں مرنے والا، یا بچہ جنتے ہوئے عورت جان دے دے وغیرہ۔ ظاہر ہے کہ قرآنِ مجید اور اَحادیثِ مبارکہ میں جہاں شہداء کے فضائل ہیں ان کا سیاق و سباق بتاتا ہے کہ یہ فضائل شہداء فی سبیل اللہ کے لیے ہیں، اور جہاں احادیثِ مبارکہ میں شہداءِ حکمی کا بیان ہے وہاں ان کی خصوصیت کا بیان ہے، الغرض  نصوص میں جو اجر و ثواب جس قسم کے شہید کے لیے بیان کیا گیا ہے اس اجر و ثواب کے بارے میں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید رکھی جائے گی کہ یہ شہید اس اجر کا مستحق ہے، اور ان فضائل کو اس شہید کے لیے بیان  کیا جاسکتاہے، اور جہاں ضرورت ہو بیان بھی کرنا چاہیے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دین کے تحفظ، دفاع اور نصرت کے لیے جو شخص اپنے جان و مال کی قربانی دیتے ہوئے میدانِ جہاد میں شہید ہو اس کی فضیلت زیادہ بلند اور سِوا ہوگی، اس کے مقابلے میں جو طاعون یا  پیٹ کے درد وغیرہ میں یا چھت سے گر کر مرجائے۔ لیکن ہر ہر شہید کو ہر فضیلت حاصل ہو، یہ ضروری بھی نہیں ہے، اور اس کا دعویٰ بھی نہیں کیا جاسکتا۔ آخرت کے اَحکام اور اجر و ثواب کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردینا چاہیے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 252):
"وكل ذلك في الشهيد الكامل، وإلا فالمرتث شهيد الآخرة".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 252):
"(قوله: في الشهيد الكامل) وهو شهيد الدنيا والآخرة، وشهادة الدنيا بعدم الغسل إلا لنجاسة أصابته غير دمه كما في أبي السعود، وشهادة الآخرة بنيل الثواب الموعود للشهيد أفاده في البحر". 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200707

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں