بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا شوہر کے ذمہ بیوی کے علاج معالجہ کے خرچہ لازم ہے؟


سوال

 موجودہ دور میں بیماریاں بہت زیادہ ہیں اور ان کے اخراجات بھی بہت زیادہ آتے ہیں ۔ بیوی کے علاج کے اخراجات کس کے ذمہ لازم ہیں ؟ خود بیوی کے مال سے کریں گے یا قرآنی آیت وعاشروھن بالمعروف کے تحت شوہر پر نفقہ کے طور پر واجب ہیں ؟ فتاوی عثمانی میں خیال کے درجہ میں یہ رائے مفتی تقی عثمانی صاحب نے لکھی ہے کہ شوہر پر واجب ہونا چاہیے اور دوسرے حضرات سے رجوع کا مشورہ دیا گیا ہے ۔ آپ حضرات تفصیل سے جواب عنایت فرمائیں !

جواب

میاں بیوی کے باہمی حقوق سے متعلق شریعتِ مطہرہ کی تعلیما ت کا خلاصہ یہ ہے کہ شوہر کو چاہیے کہ  وہ اپنی بیوی کو اللہ کی عطا کی ہوئی نعمت سمجھے،  اس  کی قدر اور اس سے محبت  کرے، اگر اس سے غلطی ہوجائے تو چشم پوشی  سے کام لے، صبروتحمل اور دانش مندی سے اس کی  اصلاح کی کوشش کرے،  اپنی استطاعت کی حد تک اس کی ضروریات اچھی طرح پوری کرے، اس کی راحت رسانی اور دل جوئی کی کوشش کرے اور   بیوی کو چاہیے  کہ وہ اپنے شوہر کو اپنے سے بالاتر سمجھے،  اس کی وفادار اور فرماں بردار رہے، اس کی خیرخواہی اور رضا جوئی میں کمی نہ کرے، اپنی دنیا  اور آخرت کی بھلائی  اس کی خوشی سے وابستہ سمجھے،  نیز میاں بیوی کا باہمی رشتہ حسنِ اخلاق، حسنِ معاشرت  اور ہم دردی و  ایثار  کے جذبہ سے ہی چل سکتا ہے، اگر شوہر یہ کہے کہ میری بیوی کا علاج معالجہ میرے ذمہ نہیں ہے اور وہ اس کا علاج کا خرچہ نہ دے اور دوسری طرف بیوی یہ کہے  کہ شوہر کے والدین اور گھر والوں کی خدمت کرنا میری ذمہ داری نہیں ہے، نیز شوہر کے لیے کھانا بنانا اور اس کے کپڑے دھونا میری ذمہ داری نہیں ہے تو  اس طرح معاشرہ درہم برہم  ہوجائے گا، اور امورِ خانہ داری بہت زیادہ متاثر ہوں گے۔

  شریعتِ مطہرہ نے میاں بیوی میں توازن برقرار رکھنے کے لیے جہاں  بیوی کے علاج معالجہ کا خرچہ شوہر پر لازم نہیں کیا  وہیں بیوی کے ذمہ بھی شوہر کے والدین کی خدمت اور شوہر کے کپڑے وغیرہ دھونے اور اس کے لیے  کھانا پکانے کو بھی ازروئے شرع لاز م اور واجب نہیں کیا، لیکن دونوں کو حسنِ معاشرت کا حکم دیا ہے ،  ظاہر ہے کہ اگر اپنی رفیقۂ حیات کے ساتھ خوشیوں بھری زندگی گزارنی ہوتو اس کے لیے  زندگی کے نشیب وفراز، دکھ سکھ میں بھی ایثار اور چشم پوشی سے کام لینا ہوگا، جو کہ شریعت میں عین مطلوب ہے، اس کے برخلاف اگر ایک آدمی اپنی زوجہ کو صحت کی حالت میں تو اپنے پاس رکھے اور اس سے نفع اٹھائے اور مرض کی حالت میں بیوی کے مال سے علاج معالجہ کرے یا اس کے والدین کے ہاں پہنچا دے تو اس سے خصوصاً اس دور میں جب کہ مزاج میں تنگی اور تلخی پیدا ہوچکی ہے، باہمی رنجشیں، عداوت اور امورِ خانہ داری کے درہم برہم ہونے کے سوا اور کچھ جنم نہیں لے گا، اسی طرح جیساکہ ہمارے عرف میں بیویاں شوہر کے گھر والوں کی خدمت کرتی ہیں اور شوہر کے لیے کھانا بناتی ہیں اور اس کے کپڑے بھی دھوتی ہیں جو کہ قانوناً ان کے ذمہ لازم نہیں ہے،  بلکہ یہ سب دیانتاً اور اخلاقاً ہے ، بالکل اسی طرح شوہروں پر بیوی کے علاج معالجہ کا خرچہ بھی گو  فقہاء کی تصریحات کے مطابق قانونِ شرع کی رو سے لازم اور ضروری نہیں ہے، لیکن دیانۃً اور اخلاقاً اس کے ذمہ ضرور لازم ہے، خصوصاً اس دور میں جب کہ بیماریاں اس قدر بڑھ گئیں ہیں، اور علاج معالجہ اس قدر مہنگا ہوگیا ہے کہ اگر شوہر علاج کا خرچہ نہ اٹھائے اور بیوی  کے پاس مال نہ ہو تو وہ علاج معالجہ کس طرح کرائے گی،  اور اس سے امورِ خانہ کس حد تک متاثر ہوں گے، یہ کسی ذی شعور پر مخفی نہیں ہے۔ 

شریعت کا حسن ہی یہ ہے کہ اس نے میاں بیوی کے حقوق میں توازن رکھا ہے  اور حسنِ معاشرت کا حکم دے کر  یہ واضح کیا ہے کہ میاں بیوی کا رشتہ باہم اخلاقیات اور ایثار اور ہم دردی سے چلتا ہے،  کچھ چیزیں  بیوی کے ذمہ لازم نہیں کیں  ،اور کچھ شوہرکے ذمہ لازم نہیں کیں، لیکن حسنِ معاشرت کے باب میں دیانۃً اور اخلاقاً یہ چیزیں  دونوں کی ایک  دوسرے پر لازم ہیں۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200404

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں