بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا خانقاہ میں اعتکاف کیا جاسکتا ہے؟


سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام، اس مسئلے کے بارے میں:

میں وفاق المدارس العربیہ سے فارغ التحصیل اورسلسلۂ قادری سے مجاز ہوں، میری خانقاہ ایسی جگہ واقع ہے ، جہاں اردگرد غیرمسلموں (مسیحیوں اورمرزائیوں) کی کثرت ہے،  ان کے بعد زیادہ تعداد رافضیوں کی ہے،  اس کے باوجود محض اللہ کی توفیق سے فقیر کی خانقاہ میں کئی سال سےمخلوقِ خدا کو اکابرینِ احناف کی ترتیب کے مطابق سچا مسلمان بنانے کے لیے صبح سے شام تک سلسلۂ قادریہ کےدرج ذیل معمولات ہورہے ہیں۔

1: پانچ وقت اذان

2: باجماعت نماز

3: صبح و شام ذکر ، دعا،معمولات

4: نمازِ  عصر کے بعد ختمِ  خواجگان

5: نمازِ  جمعہ

6: نمازِ  عیدین

7: ہر جمعے کو درود شریف کی محفل، جس میں ہزاروں مرتبہ درود شریف پڑھنے کا اہتمام ہوتا ہے۔

8: صبح و شام ذکر نفی اثبات و مراقبہ

9: نمازِفجر کے بعد "منتخب احادیث" (مصنفہ:مولانا محمد یوسف کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ)کا درس

10: نمازِ  مغرب کے بعد مسنون اعمال کا یومیہ مذاکرہ۔

علمائے احناف کی سرپرستی میں یہ سلسلہ سالہا سال سے جاری و ساری ہے۔الحمدللہ فقیر کی خانقاہ میں کثیرالتعدادلوگ رجوع کرتے ہیں۔جن میں اہلِ  حدیث اور شیعہ بھی شامل ہیں، مگر خاص طور پہ احناف کی کثرت ہے۔ جمعہ میں لوگوں کاجمِ غفیر دیکھنے میں آتا ہے اور عیدین میں تو ماشاء اللہ بہت بڑا ہجوم ہوتا ہے۔ محض اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہزاروں لوگوں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں۔کئی گلوکاروں اور طوائفوں نے فقیر کے ہاتھ پر توبہ کی۔ برسوں سے سودی نظام کے ذریعے کاروبار چلانے والوں نے فقیر کی خانقاہ میں وقت گزارنے کے بعدسود سے دامن چھڑایا۔خوشی غمی کے موقع پر ہونے والے فرنگیانہ اور ہندووانہ رسم و رواج میں جکڑے لوگوں نے اسلامی تعلیمات کو اپنایا۔داڑھی والوں (علماء ،حفاظ اور قراءحضرات)کو حقارت کی نظر سے دیکھنے والوں نے اپنے جذبے بدلے۔ دین سے متنفر لوگوں نے دینی ماحول کو اپنے اپنے گھروں میں لاگو کرنا شروع کیا۔ذکر و تسبیح کے منکرین کے ہاتھوں میں تسبیح اور زبان پہ اللہ کا نام آگیا۔جدید تعلیم یافتہ طبقے نے اکابرینِ احناف کےقدیم اخلاقیات کو سراہا اور خوش دلی سےاپنایا۔ سنتِ  نبویﷺ سے بے زار عوام نےمسنون اعمال کے ساتھ خود کو مزین کرناشروع کردیا۔الغرض فقیر کی خانقاہ سے جڑے بے شمارگھرانوں میں ایک خوش آئند روحانی انقلاب دیکھا جارہا ہے۔ فالحمدللہ الذی بنعمتہٖ تتم الصالحات

ہر سال رمضان المبارک میں ایک بہت بڑا مجمع فقیر کے ہاں رمضان گزارنے آتا ہے اور آخری عشرے میں رجوعِ خلائق مزیدبڑھ جاتا ہے۔مخلوقِ  خدا آخری عشرے کے مسنون اعتکاف کو پسند کرتی ہے۔ میں چوں کہ خود عالم ہوں، لہٰذا میں نے اس ضمن میں بیش تر علمائے احناف سے مشورہ کیا، آیاکہ ایسی جگہ، جہاں یہ ترتیب سالہا سال سے موجود ہو ، وہاں مسنون اعتکاف ہوسکتا ہے؟ اس کے جواب میں کچھ علمائے احناف کا فتویٰ رخصت کا ہے، کچھ کا عزیمت کا ہے۔ یعنی کچھ علماء کا کہنا ہے کہ خانقاہ کا اعتکاف نفل ہوتا ہے ، کیوں کہ سنت اعتکاف کے لیے مسجد کا ہونا شرط ہے۔ جب کہ اکثرعلمائے احناف ان دلائل کی  بنیاد پر اس اعتکاف کو سنت قرار دیتے ہیں کہ چوں کہ یہاں پانچ وقت اذان، با جماعت نماز، عیدین اورجمعہ باقاعدگی سے ہورہا ہے، اس لیے یہاں اعتکاف مسنون ہوگا اورا س کی شرعی حیثیت مضبوط ہوگی۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ علمائے احناف کا اس کے جواز میں بھی فتویٰ ہے اور غیر مسنون یعنی نفلی ہونے پر بھی۔

لہٰذا اس ضمن میں مجھے آپ سے فیصلہ کن راہ نمائی چاہیے۔جیساکہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ فقیر کی خانقاہ ایسی جگہ واقع ہے ،جہاں اردگردغیر مسلم لوگوں اور ماڈرن طبقےکی اکثریت ہے۔ لہٰذا میرے ہاں ماڈرن طبقہ بھی بہت زیادہ تعداد میں آتا ہے، جس سے ان کے عقائد تبدیل ہوتے ہیں اور احوال کی اصلاح ہوتی ہے۔فقیر  چوں کہ اس علاقے میں احناف میں سے فردِ واحد ہے، اس لیےسارا سال دروس و خطبات اور ذکر ومراقبہ کے ذریعے ماڈرن طبقےپر محنت کی جاتی ہے اوربڑی مشکل سے انہیں اکابرینِ  احناف کی ترتیبِ  زندگی میں ڈھالنے کا فریضہ انجام دیا جاتا ہے، لیکن اگر وہ سارےسال کی محنت کے بعد مسنون اعتکاف کے لیے کہیں اور جاتے ہیں تو وہاں ان کا آخری عشرہ تو گزر جاتا ہے، مگر دن بدن بڑھتے ہوئے دجالی فتنوں کے باعث وہاں سے ان کے عقائد خراب ہونے کا خطرہ ہوتا ہے، اوروہ اکابرینِ  احناف کی ترتیب سے ہٹ کر من چاہی غیر مقلدانہ روش اختیار کرلیتے ہیں۔ جس سے ان پر ساراسال کی جانے والی ساری محنت اکارت جاتی ہے اور وہ وہاں  سے عجیب و غریب قسم کی خرافات سن کر الٹا اکابرینِ  احناف پر الزام دینا شروع ہوجاتے ہیں کہ( نعوذ باللہ ) وہ تمام حضرات حضورﷺ کی راہوں سے ہٹے ہوئے تھے اور سلاسلِ تصوف و فقہ حنفی کاشریعتِ محمدیہ (علیٰ صاحبھا الصلوٰۃ والسلام) سے کوئی تعلق نہیں۔

 ان تمام مسائل و خطرات کو دیکھ کر علمائے کرام کا کہنا ہےکہ:

1: جب امت کو دجالی فتنے ہرطرف سے گھیر لیں اور دین سے جوڑنے والے خود دین سے بے زار کرنے والے بن جائیں، اس وقت ایسی جگہوں پر مسنون اعتکاف کے لیے لوگوں کو جمع کرنے میں کوئی شرعی عذر نہیں، بلکہ شریعت کاعین تقاضا ہے۔

2: ایک صاحبِ  علم شخصیت نے فرمایا: خانقاہ چوں کہ ایسی جگہ واقع ہے، جہاں اردگرد غیرمسلموں کی کثرت ہے اوراگر وہاں رہنے والے گنتی کے چندمسلمانوں کا عالم بھی یہ ہے کہ وہ لوگوں کو دین کی دعوت دینے کی بجائے اپنی غیرمقلدانہ راہوں کی طرف بلا رہے ہیں تو ایسے ماحول میں ایسی خانقاہ کا اعتکاف مسنون سمجھا جائےگا، جہاں جمعہ،  جماعت اور عیدین کا معمول ہو۔

3: ایک عالمِ دین فرمانے لگے کہ :فقہ حنفی کے مطابق مسنون اعتکاف کے لیے یہ شرط ہے کہ معتکف مردکو ایسی مسجد کا انتخاب کرنا چاہیے، جہاں نماز باجماعت کا انتظام ہو۔ پھر ایسی مسجدکا انتخاب کرنا چاہیے، جہاں مسلمانوں کے اجتماع کی کثرت ہو ؛ کیوں کہ جس طرح دو آدمیوں کی نماز ایک آدمی سے اور تین آدمیوں کی نماز دوآدمیوں سے بہتر ہے،  اسی طرح اعتکاف میں بھی معتکفین کی تعداد کے بڑھنے سے فضائل بڑھ جاتے ہیں۔ لہٰذا ایسی خانقاہ، جہاں رمضان المبارک کے علاوہ باقی دنوں میں بھی مسجدوالے اعمال (اذانیں، باجماعت نمازیں،عیدین اور جمعہ)جاری ہوں، وہاں سنت اعتکاف ہی کا حکم لاگو ہوگا۔

فقیر کو آپ کی تحقیق پر مکمل اعتماد ہے، اس لیےآپ کی بات میرے لیے حتمی فیصلہ ہوگا۔

براہِ  کرم ان تمام حقائق کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے فتویٰ عنایت فرمائیں کہ کیا فقیر کی خانقاہ میں مسنون اعتکاف ہوسکتا ہے؟  فقیر کا اصل مقصد تو یہ ہے کہ مخلوقِ  خدا کواکابر ینِ احناف کی ترتیب پرچلتے ہوئےقرآن وسنت سے وابستہ کیاجائے۔

جواب

بصورتِ مسئولہ حکمِ شرعی یہ ہے  کہ مردوں کے اعتکافِ مسنون کے  لیے مسجد کا ہونا شرط ہے، مسجد کے علاوہ کسی اور مقام پر اعتکاف کرنے کی اجازت کسی بھی مسلک میں نہیں دی گئی ہے، لہذا آپ کی خانقاہ میں جو حصہ مسجدِ شرعی  کے لیے وقف ہو صرف اس حصہ میں اعتکاف کرنے کی اجازت ہوگی، اس حصہ کے علاوہ خانقاہ کے بقیہ حصہ میں اعتکاف کرنا شرعاً درست نہیں ہے،  لہذا مریدین کے اعتکاف کی ترتیب مسجد کے حصہ میں ہی بنائی جائے۔

لیکن اگر خانقاہ میں شرعی مسجد  ہی نہ ہو جیسا کہ سوال سے ظاہر ہے تو پھر سرے سے خانقاہ میں مسنون اعتکاف درست نہ ہوگا۔

 "مَكَانُ الاِعْتِكَافِ:

أ - مَكَانُ الاِعْتِكَافِ لِلرَّجُل:

١٤ - أَجْمَعَ الْفُقَهَاءُ عَلَى أَنَّهُ لاَيَصِحُّ اعْتِكَافُ الرَّجُل وَالْخُنْثَى إِلاَّ فِي مَسْجِدٍ، لِقَوْلِهِ تَعَالَى: {وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ} وَلِلاِتِّبَاعِ، لأَِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَعْتَكِفْ إِلاَّ فِي الْمَسْجِدِ ... ثُمَّ اخْتَلَفُوا فِي الْمَسَاجِدِ الأُْخْرَى الَّتِي يَصِحُّ فِيهَا الاِعْتِكَافُ. فَذَهَبَ الْحَنَفِيَّةُ وَالْحَنَابِلَةُ إِلَى أَنَّهُ لاَيَصِحُّ الاِعْتِكَافُ إِلاَّ فِي مَسْجِدِ جَمَاعَةٍ. وَعَنْ أَبِي حَنِيفَةَ أَنَّهُ لاَيَصِحُّ الاِعْتِكَافُ إِلاَّ فِي مَسْجِدٍ تُقَامُ فِيهِ الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ، لأَِنَّ الاِعْتِكَافَ عِبَادَةُ انْتِظَارِ الصَّلاَةِ، فَيَخْتَصُّ بِمَكَانٍ يُصَلَّى فِيهِ، وَصَحَّحَهُ بَعْضُهُمْ. وَقَال أَبُو يُوسُفَ وَمُحَمَّدٌ: يَصِحُّ فِي كُل مَسْجِدٍ، وَصَحَّحَهُ السُّرُوجِيُّ. وَعَنْ أَبِي يُوسُفَ أَنَّهُ فَرَّقَ بَيْنَ الاِعْتِكَافِ الْوَاجِبِ وَالْمَسْنُونِ، فَاشْتُرِطَ لِلاِعْتِكَافِ الْوَاجِبِ مَسْجِدُ الْجَمَاعَةِ، وَأَمَّا النَّفَل فَيَجُوزُ فِي أَيِّ مَسْجِدٍ كَانَ. وَيَعْنِي الْحَنَفِيَّةُ بِمَسْجِدِ الْجَمَاعَةِ مَا لَهُ إِمَامٌ وَمُؤَذِّنٌ، أُدِّيَتْ فِيهِ الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ أَوْ لاَ". (الموسوعة الفقهية الكوتية، ٥ / ٢١١ - ٢١٢)

م - مَا يُعْتَبَرُ مِنَ الْمَسْجِدِ وَمَا لاَيُعْتَبَرُ:

٤٢ - اتَّفَقَ الْفُقَهَاءُ عَلَى أَنَّ الْمُرَادَ بِالْمَسْجِدِالَّذِي يَصِحُّ فِيهِ الاِعْتِكَافُ، مَا كَانَ بِنَاءً مُعَدًّا لِلصَّلاَةِ فِيهِ. أَمَّا رَحْبَةُ الْمَسْجِدِ، وَهِيَ سَاحَتُهُ الَّتِي زِيدَتْ بِالْقُرْبِ مِنَ الْمَسْجِدِ لِتَوْسِعَتِهِ، وَكَانَتْ مُحَجَّرًا عَلَيْهَا، فَاَلَّذِي يُفْهَمُ مِنْ كَلاَمِ الْحَنَفِيَّةِ وَالْمَالِكِيَّةِ وَالْحَنَابِلَةِ فِي الصَّحِيحِ مِنَ الْمَذْهَبِ أَنَّهَا لَيْسَتْ مِنَ الْمَسْجِدِ، وَمُقَابِل الصَّحِيحِ عِنْدَهُمْ أَنَّهَا مِنَ الْمَسْجِدِ، وَجَمَعَ أَبُويَعْلَى بَيْنَ الرِّوَايَتَيْنِ بِأَنَّ الرَّحْبَةَ الْمَحُوطَةَ وَعَلَيْهَا بَابٌ هِيَ مِنَ الْمَسْجِدِ. وَذَهَبَ الشَّافِعِيَّةُ إِلَى أَنَّ رَحْبَةَ الْمَسْجِدِ مِنَ الْمَسْجِدِ، فَلَوِ اعْتَكَفَ فِيهَا صَحَّ اعْتِكَافُهُ، وَأَمَّا سَطْحُ الْمَسْجِدِ فَقَدْ قَال ابْنُ قُدَامَةَ: يَجُوزُ لِلْمُعْتَكِفِ صُعُودُ سَطْحِ الْمَسْجِدِ، وَلاَنَعْلَمُ فِيهِ خِلاَفًا. أَمَّا الْمَنَارَةُ فَإِنْ كَانَتْ فِي الْمَسْجِدِ أَوْ بَابها فِيهِ فَهِيَ مِنَ الْمَسْجِدِ عِنْدَ الْحَنَفِيَّةِ وَالشَّافِعِيَّةِ وَالْحَنَابِلَةِ. وَإِنْ كَانَ بَابُهَا خَارِجَ الْمَسْجِدِ أَوْ فِي رَحْبَتِهِ فَهِيَ مِنْهُ، وَيَصِحُّ فِيهَا الاِعْتِكَافُ عِنْدَ الشَّافِعِيَّةِ. وَإِنْ كَانَ بَابُهَا خَارِجَ الْمَسْجِدِ فَيَجُوزُ أَذَانُ الْمُعْتَكِفِ فِيهَا، سَوَاءٌ أَكَانَ مُؤَذِّنًا أَمْ غَيْرَهُ عِنْدَ الْحَنَفِيَّةِ، وَأَمَّا عِنْدَ الشَّافِعِيَّةِ فَقَدْ فَرَّقُوا بَيْنَ الْمُؤَذِّنِ الرَّاتِبِ وَغَيْرِهِ، فَيَجُوزُ لِلرَّاتِبِ الأَْذَانُ فِيهَا وَهُوَ مُعْتَكِفٌ دُونَ غَيْرِهِ، قَال النَّوَوِيُّ: وَهُوَ الأَْصَحُّ". (الموسوعة الفقهية الكويتية، ٥/ ٢٢٤ - ٢٢٥) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201534

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں