بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا حضرت خضر سے ملاقات کا کوئی وظیفہ ہے؟


سوال

میری بہت بڑی خواہش ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات ہوجائے اس کے لیے مجھے برائے مہربانی کوئی وظیفہ بتائیں!

جواب

شریعتِ مطہرہ نے ہمیں آخرت کی تیاری اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودگی کے حصول کی جستجو کا پابند کیا ہے، کسی ایسے کام کی جستجو کی ترغیب نہیں دی ہے  کہ جس سے دنیا و آخرت میں سے کسی کا کوئی فائدہ نہ ہو، لہٰذا سائل کے لیے بہتر ہے کہ ایسی خواہش کی بجائے اللہ تبارک وتعالیٰ کے ہاں رفعِ درجات اور قبولیت کی دعا کرے، قطع نظر حضرت خضر علیہ السلام کے حیات ہونے یا نہ ہونے کے، معلوم نہیں کہ ہماری کس خواہش اور دعا میں ہمارے لیے فائدہ ہے اور جو چیز ہمیں عطا نہیں ہورہی اس میں کیا حکمتیں پوشیدہ ہیں! اور اگر حضرت خضر علیہ السلام حیات بھی ہوں  تو ان سے ملاقات کسبی نہیں کہ کسی وظیفہ سے ممکن ہو سکے۔

جہاں تک حضرت خضر علیہ السلام کی حیات کا مسئلہ ہے، اس حوالے سے مناسب معلوم ہوتاہے کہ سابق مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی ولی حسن ٹونکی صاحب رحمہ کا ایک فتویٰ بعینہ نقل کردیا جائے:

’’ سوال

ہمارے گوٹھ میں دو مولوی صاحبان کے درمیان جھگڑا چل رہاہے ، ایک مولوی صاحب کہتے ہیں کہ حضرت خضر علیہ السلام اور حضرت الیاس علیہ السلام دونوں زندہ ہیں، دوسرے مولوی صاحب کہتے ہیں کہ دونوں زندہ نہیں ہیں، دونوں پیغمبروں کے متعلق صحیح صورتِ حال سے آگاہ فرماکر ممنون فرمائیں!

جواب:

اس مسئلہ پر بحث کرنے سے پہلے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ حضرت خضر علیہ السلام اور حضرت الیاس علیہ السلام کی موت و حیات سے ہمارا کوئی اعتقادی یا علمی مسئلہ متعلق نہیں ہے، اس لیے قرآن و سنت میں اس کے متعلق کوئی صراحت و وضاحت نہیں ملتی، اس لیے اس میں زیادہ بحث و تمحیص کی ضرورت نہیں، اور نہ ہی کسی ایک جانب کا یقین رکھنا ہمارے لیے ضروری ہے، لیکن سائل نے چوں کہ سوال کیا ہے، اس لیے بطور خلاصہ کے چند سطور تحریر ہیں۔

حضرت خضر علیہ السلام کے متعلق بہت اختلاف ہیں، ایک اہم اختلاف یہ ہے کہ وہ زندہ ہیں یا وفات پاگئے ہیں؟

محدثین و مفسرین کی ایک بڑی جماعت کی تحقیق یہی ہے کہ وہ وفات پاگئے ہیں، ان میں سے حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے دعویٰ کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے ایک بھی صحیح حدیث ایسی منقول نہیں ہے جس سے حضرت خضر علیہ السلام کے زندہ ہونے کا ثبوت ملتاہو، بلکہ اس کے برعکس آیاتِ قرآنیہ اور صحیح روایات ان کی موت کی تائید کرتی ہیں۔

جب کہ دوسری طرف حضرات صوفیاءِ کرام اور دوسرے حضرات ان کی حیات کے قائل ہیں، حضرت تھانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:

"اور اب تک زندہ ہونے پر تمام اہلِ باطن و صلحاء کا اتفاق ہے، اور ہمیشہ ایسے لوگوں سے ملاقات کرتے رہے اور کرتے ہیں ۔۔۔ اور اکثر بزرگوں سے حکایات بمنزلہ خبرِ متواتر ان کی زندگی کے منقول و مشہور ہیں"۔

تفسیرِ مظہری میں حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ نے فرمایاکہ: تمام اشکالات کا حل اسی میں ہے جو حضرت سید احمد سر ہندی مجدد الف ثانی رحمہ اللہ نے اپنے مکاشفہ سے فرمایاکہ: میں نے خود خضر علیہ السلام سے اس معاملہ کو عالمِ کشف میں دریافت کیا، انہوں نے فرمایاکہ: میں اور الیاس علیہ السلام ہم دونوں زندہ نہیں ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ قدرت دی ہے کہ ہم زندہ لوگوں کی شکل میں متشکل ہوکر اللہ تعالیٰ کے حکم اور اذن کے تحت لوگوں کی امداد مختلف صورتوں میں کرتے ہیں۔۔۔ الخ فقط واللہ اعلم

کتبہ: ولی حسن‘‘.

ایک اور فتوے میں لکھتے ہیں:

’’خلاصہ یہ ہے کہ تمام اہلِ باطن و صلحاء کا اتفاق اس بات پر ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام ابھی تک زندہ ہیں۔ لیکن ائمہ محدثین کی ایک جماعت انکار کرتی ہے، اور صاحبِ روح المعانی نے عدمِ حیات کو ترجیح دی ہے۔

بہرحال حضرت خضر علیہ السلام کی موت و حیات سے ہمارا کوئی اعتقادی یا عملی مسئلہ متعلق نہیں، اس لیے قرآن و سنت میں اس کے متعلق کوئی صراحت و وضاحت نہیں کی گئی، اس لیے اس میں زیادہ بحث و تمحیص کی بھی کوئی ضرورت نہیں، اور نہ ہی کسی ایک جانب کا یقین رکھنا ہمارے لیے ضروری ہے، اور نہ ہی حتمی رائے ممکن ہے‘‘.

کتبہ: محمد اسداللہ عفی عنہ (21/6/1406)                                             الجواب صحیح: ولی حسن‘‘.

تفسير ابن كثيرمیں ہے:

"وذكروا في ذلك -أي القائلون بحياته- حكايات وآثاراً عن السلف وغيرهم، وجاء ذكره في بعض الأحاديث ولا يصح شيء من ذلك.. وأشهرها حديث التعزية وإسناده ضعيف. ورجح آخرون من المحدثين وغيرهم خلاف ذلك واحتجوا بقوله تعالى: وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ [الأنبياء:34]. وبقول النبي صلى الله عليه وسلم يوم بدر: اللهم إن تهلك هذه العصابة لا تعبد في الأرض. وبأنه لم ينقل أنه جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا حضر عنده ولا قاتل معه، ولو كان حيا لكان من أتباع النبي صلى الله عليه وسلم وأصحابه، لأنه عليه السلام كان مبعوثاً إلى جميع الثقلين: الجن والإنس، وقد قال: لو كان موسى وعيسى حيين لما وسعهما إلا اتباعي. وأخبر قبل موته بقليل أنه لايبقى من هو على وجه الأرض إلى مائة سنة من ليلته تلك عين تطرف.. إلى غير ذلك من الدلائل. انتهى". ( 3 / 135 )

البداية والنهاية لابن كثيرمیں ہے:

"وقد قدمنا قول من ذكر أن إلياس والخضر يجتمعان في كل عام من شهر رمضان ببيت المقدس وأنهما يحجان كل سنة ويشربان من زمزم شربة تكفيهما إلى مثلها من العام المقبل، وأوردنا الحديث الذي فيه أنهما يجتمعان بعرفات كل سنة، وبينا أنه لم يصح شيء من ذلك، وأن الذي يقوم عليه الدليل أن الخضر مات، وكذلك إلياس عليهما السلام. انتهى".

أضواء البيان للشنقيطيمیں ہے:

"فصل أطال فيه النفس وأثبت بالمنقول والمعقول موت الخضر عليه السلام وهو مبحث نفيس نوصي السائل الكريم بمراجعته. وأما إلياس عليه السلام فالقول فيه كالقول في الخضر عليه السلام أنه قد مات لعموم الأدلة المتقدمة". ( 2 / 420) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106201225

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں