بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا حج کے لیے بینک میں جمع کرائی گئی رقم پر زکاۃ ہے؟


سوال

کیا حج کے لیے بینک میں جمع کرائی گئی رقم پر زکوۃ ہے؟

جواب

اگر  حج کے لیے رقم جمع کروادی گئی  تو اس کی دو صورتیں ہیں:(1) حکومت کی اسکیم ہے۔ (2)  پرائیویٹ اسکیم ہے۔

حکومت کی اسکیم میں جو رقم جمع کرائی جاتی ہے  اس میں سے کچھ رقم پاسپورٹ اور ٹکٹ کے  ساتھ واپس ملتی ہے، اور پرائیوٹ اسکیم میں رقم واپس نہیں ملتی؛  لہذا سرکاری اسکیم میں رقم جمع کرانے اور  قرعہ اندازی میں نام آنے کے بعد  زکات  کا سال مکمل ہوگیا  تو روانگی سے پہلے جو رقم واپس ملے گی، اگر وہ زکات کا سال مکمل ہونے کے وقت موجود ہو تو اسے زکات کے حساب میں شامل کیا جائے گا۔ اور جو رقم حج کے اخراجات  کی مد میں  کٹ گئی اس کی  زکات لازم نہیں ہوگی۔ اور پرائیوٹ اسکیم میں چوں کہ کوئی رقم واپس نہیں کرتے  تو جمع  کرائی رقم پر  زکات بھی لازم نہیں ہوگی۔

اور اگر  سرکاری اسکیم میں  رقم جمع کرائی ہے  اور ابھی تک قرعہ اندازی نہیں ہوئی، یاقرعہ اندازی ہوگئی اور ناکام امیدواروں میں نام آگیا  تو بھی اس رقم پر زکات کا سال پورا ہونے پر زکات واجب ہوگی، خواہ وہ رقم ابھی تک بینک سے نہ نکلوائی ہو۔

اور اگر سائل کی مراد حج  کے لیے بینک میں جمع کرائی گئی رقم سے  یہ ہو کہ حج کی نیت  سے  اپنے بینک اکاؤنٹ میں رقم جمع کی ہے، تو چوں کہ یہ رقم ابھی تک سائل کی ملکیت میں ہے؛  اس لیے  اگر  یہ رقم نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت) تک پہنچ جائے تو سال گزرنے کے بعد اس رقم پر زکات واجب ہوجائے گی، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائل حج کے اخراجات کی نیت سے جو رقم بینک اکاؤنٹ میں جمع کرتا رہا ہے جس وقت وہ رقم نصاب کے بقدر ہوگئی تھی اس وقت کے ٹھیک ایک سال بعد جتنی رقم اکاؤنٹ میں جمع ہوچکی ہو اس پوری رقم پر ڈھائی فی صد زکات لازم ہوگی، ہر ماہ جمع کی جانے والی رقم پر الگ سے سال گزرنا شرط نہیں ہے، بلکہ نصاب کے بقدر  رقم ملکیت میں آنے کے بعد سال پورا ہونے سے ایک دن پہلے بھی جو رقم ملکیت میں آئی ہو سال مکمل ہونے پر اس کی بھی زکات ادا کرنی ہوتی ہے۔

اور اگر سائل پہلے سے صاحبِ نصاب ہے تو پھر حج کے لیے جمع کی جانے والی رقم کا الگ سے حساب نہیں ہوگا، بلکہ سابقہ حساب سے زکات کا سال مکمل ہونے والے دن  سائل کی ملکیت میں جتنی نقدی ہو (بشمول اخراجاتِ حج کی مد میں جمع کی گئی رقم) اس مجموعی رقم کا ڈھائی فی صد بطورِ زکات ادا کرنا ہوگا۔ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 262):

’’ فإذا كان معه دراهم أمسكها بنية صرفها إلى حاجته الأصلية لاتجب الزكاة فيها إذا حال الحول، وهي عنده، لكن اعترضه في البحر بقوله: ويخالفه ما في المعراج في فصل زكاة العروض أن الزكاة تجب في النقد كيفما أمسكه للنماء أو للنفقة، وكذا في البدائع في بحث النماء التقديري. اهـ. 

قلت: وأقره في النهر والشرنبلالية وشرح المقدسي، وسيصرح به الشارح أيضا، ونحوه قوله في السراج سواء أمسكه للتجارة أو غيرها، وكذا قوله في التتارخانية نوى التجارة أولا، لكن حيث كان ما قاله ابن ملك موافقا لظاهر عبارات المتون كما علمت، وقال ح إنه الحق فالأولى التوفيق بحمل ما في البدائع وغيرها، على ما إذا أمسكه لينفق منه كل ما يحتاجه فحال الحول، وقد بقي معه منه نصاب فإنه يزكي ذلك الباقي، وإن كان قصده الإنفاق منه أيضا في المستقبل لعدم استحقاق صرفه إلى حوائجه الأصلية وقت حولان الحول، بخلاف ما إذا حال الحول وهو مستحق الصرف إليها، لكن يحتاج إلى الفرق بين هذا، وبين ما حال الحول عليه، وهو محتاج منه إلى أداء دين كفارة أو نذر أو حج، فإنه محتاج إليها أيضا لبراءة ذمته وكذا ما سيأتي في الحج من أنه لو كان له مال، ويخاف العزوبة يلزمه الحج به إذا خرج أهل بلده قبل أن يتزوج، وكذا لو كان يحتاجه لشراء دار أو عبد فليتأمل، والله أعلم.‘‘

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109202406

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں