بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا حجّام کو دکان کرایہ پر دی جا سکتی ہے؟


سوال

کیا حجّام کو دکان کرایہ پر دی جا سکتی ہے؟

جواب

اولاً یہ واضح رہے کہ  حجامت یعنی بال کاٹنے والے کی اجرت کے حلال یا حرام ہونے میں تفصیل یہ ہے کہ جو کام حرام ہیں، یعنی داڑھی مونڈنا یا بھنویں بنانا، ان کاموں کی اجرت بھی حرام ہے، اور جو کام جائز ہیں جیسے سر کے بال کاٹنا یا ایک مشت سے زائد ڈاڑھی کو  شرعی طریقے پر درست کرنا، ان کاموں کی اجرت بھی حلال ہے، البتہ جس طرح خلافِ شرع بال (مثلاً: سر کے کچھ حصے کے بال چھوٹے اور کچھ کے بڑے) رکھنا ممنوع ہے، اسی طرح خلافِ شرع بال کاٹنے کی اجرت بھی حلال طیب نہیں۔

اگر حجام یہ کام بھی کرتا ہے تو  دکان حجام  کو کرایہ پر دینا مکروہ ہے،  مالکِ دکان  کو چاہیے کہ  حجام کو اس کا پابند کریں کہ وہ یہاں یہ کام نہ کرے،  ورنہ کسی اور نیک حجام کو دکان کرائے پر دی جائے، اپنی دکان ناجائز کام کے لیے استعمال نہ ہونے دی جائے۔

’’لابأس بأن یواجر المسلم داراً من الذمي لیسکنها، فإن شرب فیها الخمر أو عبد فیها الصلیب أو أدخل فیها الخنازیر لم یلحق للمسلم أثم في شيءٍ من ذلك؛ لأنه لم یوجرها لذلک والمعصیة في فعل المستاجر دون قصد رب الدار فلا إثم علی رب الدار في ذلک‘‘. (المبسوط ج : ۱۶ ص: ۳۰۹) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200070

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں