بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا جنات کا انسانوں کے پاس آنا ثابت ہے؟


سوال

کیا واقعتاً جنات انسان کے پاس آتے ہیں؟

جواب

قرآن وحدیث کی روشنی میں جنات کی تعریف کا خلاصہ یہ ہے  کہ ایک ناری مخلوق جو مختلف شکلیں اختیار کرتی ہے، جنات کی کوئی ایک شکل مخصوص ومتعین نہیں ہے، انسانوں کی طرح جنات بھی اَحکام کے مکلف ہیں، بعض مؤمن اور نیک ہیں، بعض کافر اور نافرمان ہیں۔ ان میں جو سرکش ہیں وہ شیطان کے معاون و مدد گار ہیں، اور انسانوں کو گم راہ کرنے میں ابلیس کا ساتھ دیتے ہیں۔

ہمارے لیے اتنا ہی ضروری ہے کہ ان کے وجود کا اعتقاد رکھیں، اس سے زیادہ تفصیلات اور گہرائی میں جانے کی  نہ ہمیں  ضرورت ہے، اور نہ ہی ہم اس کے مکلف ہیں،  یہ کوئی ایمانیات کا مسئلہ نہیں جس پر ایمان رکھنا ضروری ہے،  باقی جنات کا انسانوں کے پاس آنا کئی نصوص (آیات و احادیث) سے ثابت ہے، اور واقعہ یہ ہے کہ ہر زمانے میں جنات کے انسانوں کو پریشان کرنے کے واقعات اتنی کثرت سے ہوتے ہیں کہ ان کا انکار مشکل  ہے۔

 جنات کو اللہ رب العزت نے انسانی آزمائش کے لیے  یہ قدرت دے رکھی ہے کہ وہ مختلف تصرف کرکے انسانی زندگی پر اثر اندازہوسکتے ہیں، جس کا قرآن وحدیث سے واضح ثبوت بھی ملتا ہے، لہذا کسی کے جسم پر جن کا تسلط اور اس کے اثر سے مغلو ب ہوجانا کوئی بعید نہیں ہے،  نیز جنات کی تسخیر ممکن ہے اور ان سے بچاؤ کے لیے شرعاً اس کی گنجائش بھی ہے اور جنات کا انسان کے پاس آنا ممکن اور ثابت ہے۔

  ایک واقعہ تو خود آنحضرت  ﷺ نے سنایا ہے  کہ "بنو عذرہ" قبیلے کا ایک شخص جس کا نام "خرافہ" تھا اسے جنات پکڑ کر لے گئے تھے، وہ ایک عرصے تک جنات کے درمیان مقیم رہا پھر وہی اسے انسانوں کے پاس چھوڑ گئے۔ اب وہ واپس آنے کے بعد عجیب عجیب قصے سنایا کرتا تھا، اس لئے لوگ (ہر عجیب بات کو) خرافہ کا قصہ کہنے لگے۔  
مسند أحمد مخرجا (42/ 141):

عن عائشة، قالت: حدث رسول الله صلى الله عليه وسلم نساءه ذات ليلة حديثا، فقالت امرأة منهن: يا رسول الله، كان الحديث حديث خرافة؟ فقال: " أتدرين ما خرافة؟ إن خرافة كان رجلا من عذرة، أسرته الجن في الجاهلية، فمكث فيهن دهرا طويلا، ثم ردوه إلى الإنس، فكان يحدث الناس بما رأى فيهم من الأعاجيب، فقال الناس: حديث خرافة "  

 اور آنحضرت  ﷺ سے جن اتارنے کے واقعات بھی بعض روایات میں موجود ہیں، چنانچہ روایت میں ہے:

ام ابانؒ اپنے والد سے روایت کرتی ہیں کہ ان کے   دادا آنحضرت  ﷺ کے پاس اپنے ایک مجنون (اس کے معنی پاگل بھی ہوسکتے ہیں اور جن زدہ بھی) بیٹے یا بھتیجے کو لے گئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ میں اپنے اس بیٹے یا بھتیجے کو جو مجنون ہے دعا کے لیے لایا ہوں۔ آپ  ﷺ نے فرمایا: اسے میرے پاس لے آؤ، میں آپ کے پاس لے گیا۔ آپ نے فرمایا: اسے مجھ سے قریب کردو اور اس کی پشت میری طرف کردو، چنانچہ آپ  ﷺ نے اس کے کپڑے پکڑ کر اس کی پشت پر مارنا شروع کیا یہاں تک کہ مجھے آپ  ﷺ کی بغلوں کی سفیدی دکھائی دینے لگی۔ آپ  ﷺ مارتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ "اے دشمنِ خدا نکل"، چنانچہ وہ تھوڑی دیر میں تندرستوں کی طرح دیکھنے لگا۔

 المعجم الكبير للطبراني (5/ 275):

حدثتني أم أبان بنت الوازع، عن أبيها، أن جدها الزارع، انطلق إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فانطلق معه بابن له مجنون أو ابن أخت له، قال جدي: فلما قدمنا على رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة قلت: يا رسول الله، إن معي ابنا لي أو ابن أخت لي مجنون أتيتك به تدعو الله عز وجل له، فقال: «ائتني به» فانطلقت به إليه، وهو في الركاب، فأطلقت عنه وألقيت عنه ثياب السفر وألبسته ثوبين حسنين، وأخذت بيده حتى انتهيت به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: «ادنه مني اجعل ظهره مما يليني» قال: فأخذ بمجامع ثوبه من أعلاه وأسفله، فجعل يضرب ظهره حتى رأيت بياض إبطيه وهو يقول: «اخرج عدو الله اخرج عدو الله» فأقبل ينظر نظر الصحيح ليس بنظره الأول، ثم أقعده رسول الله صلى الله عليه وسلم بين يديه، فدعا له بماء، فمسح وجهه ودعا له، فلم يكن في الوفد أحد بعد دعوة رسول الله صلى الله عليه وسلم يفضل عليه۔

اسی طرح حدیث مبارک میں ہے:

 حدثنا عمرو، قال: سمعت عكرمة، يقول: سمعت أبا هريرة، يقول: إن نبي الله صلى الله عليه وسلم قال: " إذا قضى الله الأمر في السماء، ضربت الملائكة بأجنحتها خضعانا لقوله، كأنه سلسلة على صفوان، فإذا فزع عن قلوبهم قالوا: ماذا قال ربكم؟ قالوا للذي قال: الحق، وهو العلي الكبير، فيسمعها مسترق السمع، ومسترق السمع هكذا بعضه فوق بعض - ووصف سفيان بكفه فحرفها، وبدد بين أصابعه - فيسمع الكلمة فيلقيها إلى من تحته، ثم يلقيها الآخر إلى من تحته، حتى يلقيها على لسان الساحر أو الكاهن، فربما أدرك الشهاب قبل أن يلقيها، وربما ألقاها قبل أن يدركه، فيكذب معها مائة كذبة، فيقال: أليس قد قال لنا يوم كذا وكذا: كذا وكذا، فيصدق بتلك الكلمة التي سمع من السماء .

(صحيح البخاري (6/ 122)

ترجمہ : حضرت ابوہریرہ  ؓ  سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب اللہ آسمان میں اپنا کوئی حکم بھیجتا ہے تو فرشتے عاجزی سے اپنے پروں کو پھڑ پھڑانے لگتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد اس طرح ہوتا ہے کہ جیسے صاف پتھر پر زنجیر ماری جاتی ہے جب فرشتوں کی گھبراہٹ دور ہو جاتی ہے تو وہ ایک دوسرے سے دریافت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کیا ارشاد فرمایا؟ تو دوسرا عرض کرتا ہے کہ جو کچھ فرمایا حق فرمایا، اس وقت شیاطین بھی زمین سے اوپر تلے آسمان کی طرف جاتے ہیں اور اس حکم الٰہی کو سن کر اوپر والا نیچے والے کو بتاتا ہے اور اس طرح یہ ایک دوسرے سے باتیں اڑالیتے ہیں، سفیان نے اس موقعہ پر اپنی ہتھیلی کو موڑ کر اور پھر انگلیوں کو ملا کر بتایا کہ شیاطین اس طرح ایک پر ایک ملے ہوئے ہوتے ہیں اور اوپر والا نیچے کو اور وہ اپنے نیچے والے کو اور پھر اسی طرح یہ اطلاع زمین پر ساحروں اور کاہنوں تک پہنچائی جاتی ہے، بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ فرشتے شیاطین کو آگ کا کوڑامارتے ہیں بات پہنچانے سے قبل اور ان کے بات پہنچانے کے بعد انہیں لگ جاتی ہے اور وہ اپنے نیچے والے کو خبر کر دیتا ہے، پھر یہ کاہن ایک بات میں سو باتیں جھوٹ ملا کر لوگوں سے بیان کرتے ہیں اور ایک سچی بات کی بدولت سب باتوں میں ان کی تصدیق کی جاتی ہے۔

اسی طرح جنّات کا انسانوں کو گمراہ کرنا بھی ثابت ہے، اور اس کے وسوسہ سے پناہ مانگنے کی تلقین وارد ہے، قرآن مجید میں ہے:

وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَكْثَرْتُمْ مِنَ الْإِنْسِ وَقَالَ أَوْلِيَاؤُهُمْ مِنَ الْإِنْسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وَبَلَغْنَا أَجَلَنَا الَّذِي أَجَّلْتَ لَنَا قَالَ النَّارُ مَثْوَاكُمْ خَالِدِينَ فِيهَا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ (6/128)

اس آیت کی تفسیر میں حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب تحریر فرماتے ہیں:

میدان حشر کے اندر تمام جنات اور انسانوں کو جمع کرنے کے بعد دونوں گروہوں سے ایک سوال و جواب کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ شیاطین الجن کو خطاب کرکے ان کے جرم کا اظہار اس طرح فرمائیں گے کہ تم نے انسانوں کی گمراہی میں بڑا حصہ لیا ہے، اس کے جواب میں جنات کیا کہیں گے، قرآن نے اس کا ذکر نہیں کیا، ظاہر یہی ہے کہ علیم وخبیر کے سامنے اقرار کرنے کے سوا چارہ کیا ہے، مگر ان کا اقرار ذکر نہ کرنے میں یہ اشارہ ہے کہ اس سوال پر وہ ایسے مبہوت ہوجائیں گے کہ جواب کے لیے زبان نہ اٹھ سکے گی (روح) ۔
اس کے بعد شیاطین الانس یعنی وہ لوگ جو دنیا میں شیطانوں کے تابع رہے خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کی گمراہی کا سبب بنتے رہے ان لوگوں کی طرف سے بارگاہ احکم الحاکمین میں ایک جواب ذکر کیا گیا ہے، اگرچہ سوال شیاطین الانس سے نہیں کیا گیا، مگر ضمنی طور پر گویا وہ بھی مخاطب تھے، کیوں کہ انہوں نے بھی گمراہی پھیلانے کا وہی کام کیا تھا، جو شیاطین الجن کا کام تھا، اس ضمنی خطاب کی وجہ سے ان لوگوں نے جواب دیا، مگر ظاہر یہ ہے کہ خود انسان نما شیطانوں سے بھی سوال ہوگا، جس کا ذکر صراحةً اگرچہ یہاں نہیں ہے، مگر سورة یٰسین کی اس آیت میں مذکور ہے :

 الم اعھد الیکم یٰبنی ادم ان لاتعبدوا الشیطٰن،

” یعنی اے بنی آدم کیا ہم نے تم سے رسولوں کے واسطے سے یہ نہ کہا تھا کہ شیطان کی پیروی نہ کرنا “۔ 
 جس سے معلوم ہوا کہ انسانی شیطانوں سے بھی اس موقع پر سوال ہوگا اور وہ جواب میں اقرار کریں گے کہ بیشک ہم سے یہ جرم سرزد ہوا کہ ہم نے شیطانوں کی بات مانی اور یہ کہیں گے کہ بیشک جنی شیاطین نے ہم سے اور ہم نے ان سے دوستانہ تعلقات رکھ کر ایک دوسرے سے نفع حاصل کیا، انسانی شیطانوں نے تو ان سے یہ فائدہ حاصل کیا کہ دنیا کی لذتیں حاصل کرنے کی راہیں سیکھیں، اور کہیں کہیں جنات شیاطین کی دہائی دے کر یا کسی دوسرے طریق سے ان سے امداد بھی حاصل کی، جیسے بت پرست ہندوؤں میں بلکہ بہت سے جاہل مسلمانوں میں بھی ایسے طریقے معروف ہیں جن کے ذریعہ شیاطین اور جنات سے بعض کاموں میں امداد لے سکتے ہیں، اور جنی شیطانوں نے انسانوں سے یہ فائدہ حاصل کیا کہ ان کی بات مانی گئی، اور یہ انسان کو اپنے تابع بنانے میں کامیاب ہوگئے، یہاں تک کہ وہ موت اور آخرت کو بھول بیٹھے، اور اس وقت ان لوگوں نے اقرار کیا کہ جس موت اور آخرت کو ہم شیطان کے بہکانے سے بھول بیٹھے تھے اب وہ سامنے آگئی، اس پر حق تعالیٰ کا ارشاد ہوگا :

(آیت) النَّارُ مَثْوٰىكُمْ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اِلَّا مَا شَاۗءَ اللّٰهُ ۭاِنَّ رَبَّكَ حَكِيْمٌ عَلِيْمٌ

” یعنی تم دونوں گروہوں کے جرم کی سزا اب یہ ہے کہ تمہارا ٹھکانا آگ ہے، جس میں ہمیشہ رہو گے، مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ ہی اس سے کسی کو نکالنا چاہے “ (معارف القرآن)

لہذا جنات کا انسانوں کے پاس آنا، ان پر غالب ہونا، ان کو گمراہ کرنا ثابت ہے ، اور جنات کی تسخیر بھی ممکن ہے۔

    قرآن مجید میں ہر طرح کے سحر، شیاطین وجنات وغیرہ کے شرور سے حفاظت کا نسخہ معوذتین (سورۃ الفلق وسورۃ الناس) کی صورت میں موجود ہے، صبح وشام آیۃ الکرسی اور آخری تین قل تین تین مرتبہ پڑھ لیں، نیز دیگرمسنون اوراد واذکار کے اہتمام سے ان سے  حفاظت  ہوجاتی ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200225

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں