بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا تین طلاق کے بعد دوسرے شوہر سے نکاح کر کے ازدواجی تعلق قائم کیے بغیر طلاق ملنے سے پہلے شوہر کے لیے نکاح جائز ہے؟


سوال

میری سالی اور ایک لڑکے نے گھر والوں  سے چھپ کر نکاح کیا تقریباً  5-6  سال پہلے, دونوں میں ازدواجی تعلق بھی قائم تھے, پھر کسی وجہ  سے وقفے وقفے سے 3 طلاق بھی ہوگئی دونوں میں. طلاق کے بعد بھی دونوں نے ازدواجی تعلق کچھ عرصے تک نہیں چھوڑا (ان کا کہنا ہے کہ ہمیں نہیں پتا تھا کہ  وقفے وقفے سے 3  طلاق دینے سے طلاق ہو جاتی ہے اور نکاح ختم ہو جاتا ہے). بعد میں انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے اور دونوں الگ ہو جاتے ہیں. مگر لڑکی عدت نہیں کرتی،  مگر دونوں کی محبت ختم نہیں ہوتی اور دونوں نے حلالہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اور لڑکے نے کسی عالم سے حلالہ کا پوچھا اور بتایا کہ لڑکی حلالہ میں جسمانی رشتہ قائم کرنا نہیں چاہتی تو عالم نے انہیں بتایا کہ  جسمانی رشتہ قائم نہ کرتے ہوے بھی حلالہ ہو جاتا ہے،  اگر دوسرا شوہر بنا کسی لالچ کے نکاح کرے اور طلاق دے دے۔  تو لڑکا اور لڑکی نے ایسا ہی کیا (حلالہ کرنے کے بعد بھی لڑکی عدت نہیں گزارتی) اور دوبارہ سے گھر والوں  سے چھپ کر نکاح کرلیا اور ازدواجی تعلق بھی شروع کر لیا۔

مجھے آپ سے یہ پوچھنا ہے کے کیا ان دونوں نے اسلام کے مطابق حلالہ کیا یا نہیں؟  کیا ان دونوں کا ابھی کیا گیا دوبارہ نکاح جائز ہے یا نہیں؟  کیا لڑکی کو عدت نہ  گزارنے کا گناہ ہوگا؟ اور کیا ان دونوں کا جسمانی رشتہ جائز ہے یا نہیں؟ مہربانی کر کے اس مسلۓ کا کوئی جواب دے دیں قرآن اور حدیث کی روشنی میں!

جواب

واضح رہے کہ خفیہ نکاح کرنا شرعاً پسندیدہ نہیں ہے، بہر حال اگر نکاح کی شرائط (مجلسِ نکاح میں عاقدین اور گواہوں کی موجودگی وغیرہ) ملحوظ رکھتے ہوئے عقد کیا گیا ہو تو نکاحِ صحیح کے بعد طلاق کا حکم یہ ہے کہ جس عورت کو طلاقِ مغلظہ یعنی تین طلاقیں واقع ہوجائیں تو  قرآنِ  کریم اور احادیثِ  مقدسہ کی رو سے اس عورت کا اپنے سابقہ شوہر سے تعلق بالکل ختم ہوجاتاہے، نہ رجوع جائز ہوتا ہے، نہ ہی تجدیدِ نکاح کی اجازت ہوتی ہے۔ عدت (تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو) گزرنے کے بعد عورت دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوتی ہے، پہلے شوہر کے لیے اسے روکنا، اس سے تعلق قائم کرنا،  یا کسی جگہ (بغرضِ حلالہ) اس عورت  کے (طلاق کے ساتھ مشروط)  نکاح میں حصہ دار بننا جائز نہیں ہوتا۔

عدت گزرنے کے بعد عورت کا دوسری جگہ نکاح ہوجائے اور دوسرا شوہر حقوقِ زوجیت ادا کرنے کے بعد اس کو طلاق دے دے یا اس شوہر کا انتقال ہوجائے، پھر اس دوسرے شوہر کی عدت بھی گزر جائے، تب اس سابقہ شوہرسے نکاح جائز ہوجائے گا۔

صورتِ  مسئولہ میں آپ کی سالی اور مذکورہ لڑکے کا نکاح اگر شرائطِ نکاح کی رعایت رکھتے ہوئے ہوا تھا تو اس کے بعد دی جانے والی طلاق واقع ہوگئی ہے، اگر وقفے وقفے سے تین طلاق کا مطلب یہ ہے کہ ایک طلاق کے بعد دوسری طلاق کے درمیان عدت نہیں گزری تھی، (یعنی قریب قریب مدت میں عدت کے اندر ہی تین طلاقیں دیں، یا ایک طلاق کے بعد رجوع کرلیا پھر طلاق دی، پھر رجوع کرلیا، پھر طلاق دی) تو اس صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں اور آپ کی سالی مذکورہ شخص پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی، دونوں کے لیے اس کے بعد ساتھ رہنا کبیرہ گناہ تھا، جس پر صدقِ دل سے توبہ و استغفار لازم ہے۔

بعد ازاں دوسری جگہ نکاح کب کیا گیا؟ آیا پہلے شوہر کی عدت مکمل ہونے سے پہلے کیا گیا، یا اسی دوران کردیا گیا؟  اگر عدت کے دوران کیا گیا تو ایسا نکاح شرعاً غیر نافذ اور ناجائز تھا، اور اگر پہلے شوہر کی عدت کے ایام گزر گئے تھے، پھر نکاح ہوا تو چوں کہ اس نکاح کرانے میں پہلا شوہر خود شریک رہا ہے، اور از روئے حدیث شریف ایسا شخص لعنت کا مستحق ہے، اس لیے اس صورت میں بھی دونوں کے ذمے توبہ و استغفار کرنا لازم ہے۔

بہر حال اگر دوسری جگہ نکاح کی شرائط پوری ہونے کی صورت میں نکاح ہوگیا تو چوں کہ آپ کی سالی اور اس کے دوسرے شوہر کے درمیان ازدواجی تعلق قائم نہیں ہوا؛  اس  لیے اس دوسرے شوہر سے طلاق ہونے کے باوجود وہ پہلے شوہر کے لیے حلال نہیں ہوگی۔ اور اگر دوسرے شوہر کی عدت نہ گزارنے کا مطلب ایامِ عدت کے اندر سابقہ شوہر سے دوبارہ نکاح کرنا ہے، تو عدت کے دوران نکاح کرنا مستقل گناہ ہے، اور ایسا نکاح ویسے بھی غیر نافذ ہے، اس لیے اگر دوسرے شوہر سے تعلق قائم ہونے کے باوجود بھی عدت میں نکاح کیا جاتا تو بھی ناجائز ہوتا، بہر حال آپ کی سالی کا پہلے شوہر سے نکاح جائز نہیں، چاہے عدت گزار کر ہو یا عدت گزارے بغیر۔  نیز مذکورہ صورت میں چوں کہ کئی حوالوں سے شرعی تعلیمات کو پسِ پشت ڈال کر کئی گناہوں اور مکروہات کا ارتکاب پایا جاتاہے، اس لیے دونوں کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور ان تمام گناہوں سے سچے دل سے توبہ و استغفار کریں۔

مذکورہ تفصیل کے مطابق جب تک نکاحِ صحیح نہیں ہوجاتا، اور عدت کے احکام کی رعایت نہیں کرلی جاتی، آپ کی سالی کے لیے سابقہ شوہر سے نکاح جائز نہیں ہوگا۔  چوں کہ مذکورہ لڑکا اور آپ کی سالی آپس میں اجنبی ہیں، اس لیے ان کا اختلاط اور بلاضرورت بات چیت ناجائز ہے۔ اگر مذکورہ تفصیل کے مطابق نکاح، طلاق اور عدت کے احکام کی رعایت کرلی جائے تو بھی خفیہ نکاح کرنا شرعاً پسندیدہ نہیں ہے، اس لیے گھر والوں اور خاندان کے بزرگوں کی سرپرستی کے بغیر نکاح سے بھی اجتناب کرنا چاہیے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (3/ 188):

"ومنها: الدخول من الزوج الثاني، فلاتحل لزوجها الأول بالنكاح الثاني حتى يدخل بها، وهذا قول عامة العلماء.

وقال سعيد بن المسيب: تحل بنفس العقد، واحتج بقوله تعالى: {فإن طلقها فلاتحل له من بعد حتى تنكح زوجاً غيره} [البقرة: 230]، والنكاح هو العقد، وإن كان يستعمل في العقد، والوطء جميعاً عند الإطلاق، لكنه يصرف إلى العقد عند وجود القرينة وقد وجدت؛ لأنه أضاف النكاح إلى المرأة بقوله تعالى: {حتى تنكح زوجاً غيره} [البقرة: 230]، والعقد يوجد منها كما يوجد من الرجل، فأما الجماع فإنه يقوم بالرجل وحده، والمرأة محله فانصرف إلى العقد بهذه القرينة، فإذا وجد العقد تنتهي الحرمة بظاهر النص، ولنا قوله تعالى: {فإن طلقها فلاتحل له من بعد حتى تنكح زوجاً غيره} [البقرة: 230]، والمراد من النكاح: الجماع؛ لأن النكاح في اللغة هو الضم حقيقة، وحقيقة الضم في الجماع، وإنما العقد سبب داع إليه فكان حقيقة للجماع مجازاً للعقد، مع ما أنا لو حملناه على العقد لكان تكراراً؛ لأن معنى العقد يفيده ذكر الزوج فكان الحمل على الجماع أولى، بقي قوله: أنه أضاف النكاح إليها. والجماع مما تصح إضافته إلى الزوجين لوجود معنى الاجتماع منهما حقيقةً، فأما الوطء ففعل الرجل حقيقةً، لكن إضافة النكاح إليها من حيث هو ضم وجمع لا من حيث هو وطء، ثم إن كان المراد من النكاح في الآية هو العقد فالجماع يضمر فيه، عرفنا ذلك بالحديث المشهور، وضرب من المعقول، أما الحديث فما روينا عن عائشة -رضي الله عنها-: «أن رفاعة القرظي طلق امرأته ثلاثاً، فتزوجها عبد الرحمن بن الزبير، فأتت رسول الله صلى الله عليه وسلم وقالت: إن رفاعة طلقني، وبت طلاقي؛ فتزوجني عبدالرحمن بن الزبير ولم يكن معه إلا مثل هدبة الثوب؛ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أتريدين أن ترجعي إلى رفاعة؟ لا، حتى تذوقي من عسيلته، ويذوق من عسيلتك».  وعن ابن عمر، وأنس -رضي الله عنهما- عن النبي صلى الله عليه وسلم هذا الحديث، ولم يذكرا قصة امرأة رفاعة، وهو ما روي عنهما «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم سئل، وهو على المنبر عن رجل طلق امرأته ثلاثاً فتزوجها غيره فأغلق الباب، وأرخى الستر، وكشف الخمار، ثم فارقها؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم: لاتحل للأول حتى تذوق عسيلة الآخر».

وأما المعقول فهو أن الحرمة الغليظة إنما تثبت عقوبة للزوج الأول بما أقدم على الطلاق الثلاث الذي هو مكروه شرعاً زجراً ومنعاً له عن ذلك، لكن إذا تفكر في حرمتها عليه إلا بزوج آخر -الذي تنفر منه الطباع السليمة، وتكرهه- انزجر عن ذلك، ومعلوم أن العقد بنفسه لاتنفر عنه الطباع ولاتكرهه، إذ لايشتد على المرأة مجرد النكاح ما لم يتصل به الجماع، فكان الدخول شرطاً فيه ليكون زجراً له ومنعا عن ارتكابه، فكان الجماع مضمراً في الآية الكريمة، كأنه قال عز وجل: حتى تنكح زوجاً غيره ويجامعها".

الفتاوى الهندية (1/ 473):

"وإن كان الطلاق ثلاثاً في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجاً غيره نكاحاً صحيحاً ويدخل بها، ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية، ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولاً بها أو غير مدخول بها، كذا في فتح القدير، ويشترط أن يكون الإيلاج موجباً للغسل وهو التقاء الختانين، هكذا في العيني شرح الكنز". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144102200245

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں