بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

 کیا تکبیرِ اولی کے لیے عمر کی قید ہے؟


سوال

 کیا تکبیر اولی کے لیے عمر کی قید ہے؟

جواب

تکبیرِ اولیٰ جو فضائل وارد ہوئے ہیں، ان فضائل میں عمر کی کسی قید کا ذکر نہیں ہے، مثلاً: حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص چالیس دن تک تکبیر اولی کے ساتھ نماز پڑہے گا اللہ تعالی اس کو دو پروانے عطا فرمائیں گے: ایک جہنم سے چھٹکارے کا،  دوسرا نفاق سے بری ہونے کا۔

الجامع الصحيح سنن الترمذي (2/ 2):
"عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من صلى لله أربعين يوماً في جماعة يدرك التكبيرة الأولى كتبت له براءتان براءة من النار وبراءة من النفاق".

تاہم یہ بات طے شدہ ہے کہ  بلوغت سے پہلے بچہ یا بچی شریعتِ مطہرہ کے اَحکام کے مکلف نہیں ہوتے، لہٰذا اگر بلوغت و تکلیف سے پہلے بچہ یا بچی کا انتقال ہوجائے تو اللہ پاک ان شاء اللہ اپنی شانِ رحمت سے انہیں ضرور بخش دیں گے، در اَصل مذکورہ فضیلت مکلف مرد و عورت کے لیے ہے، لیکن جس طرح نماز کے معاملہ میں دس سال کی عمر میں بچوں کو نماز نہ پڑھنے پر مارنے کا حکم فرمایا گیا ہے، لہذا تکبیرِ اولیٰ کے باب میں بھی یہ ہی کہا جائے گا کہ بچوں کو تکبیرِ اولیٰ سے نماز پڑھنے کی ترغیب دی جائے؛ تا کہ عادت پختہ ہو سکے۔

المحيط البرهاني في الفقه النعماني (1/ 429):
"وإذا زاد على واحد فهي جماعة في غير جمعة لا لقوله عليه السلام: «الإثنان فما فوقهما جماعة»؛ ولأن الجماعة مأخوذة من معنى الاجتماع، وذلك حاصل بالمثنى وإن كان معه صبي يعقل كانت جماعةً وهو إشارة إلى أن صلاة الصبي صلاة معتبرة".
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200150

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں