بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا تصویر سازی کو بطورِ پیشہ اختیار کرنا جائز ہے؟


سوال

تصویر سازی اسلام میں حرام ہے،  لیکن سکولوں کے داخلے، شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور مجبوریوں کے لیے تصویر بنوانے کا کیا حکم ہے؟  اگر ان صورتوں میں تصویر بنوانا جائز ہے تواگر تصویر بنوانے والے کے لیے جائز ہے تو جو تصویر بنا رہا ہے اس کے لیے کیسے حرام ہے؟ مطلب سکولوں اور دیگر تعلیمی مقاصد کے لیے جو لوگ تصویر پرنٹنگ کا کام کرتے ہیں وہ کاروبار حرام ہے کیا؟ اور اگر حرام ہے اس کام کو چھوڑ دینا چاہیے تو پھر یہ کام کون کرےگا؟ فرض کریں اگر سب مسلمان تصویر پرنٹنگ کا کام چھوڑ دیتے ہیں، لیکن حکومت کی طرف سے اور دوسرے مقاصد کی مجبوری کی وجہ سے لڑکیوں اور عورتوں کو تصاویر بنوانی پڑتی ہے تو کیا غیر مسلموں سے باپردہ لڑکیوں کی تصاویر پرنٹ کروانا جائز ہوگا؟ اگر نہیں تو پھر ان کے داخلے وغیرہ کیسے ہوں گے جو کہ تصویر کے بغیر اس دور میں ناممکن ہیں؟

جواب

پاسپورٹ، ویزہ و دیگر حفاظتی مقاصد کے لیے بوجہ مجبوری تصویر کھنچوانے کی اگرچہ گنجائش ہے،  تاہم اس گنجائش کی وجہ سے تصویر سازی کی حرمت ختم نہیں ہوتی، لہذا تصویر سازی کو بطورِ  پیشہ اختیار کرنا درست نہیں، جو احباب اس پیشہ سے وابستہ ہیں ان کی کمائی حلال نہیں،  نیز  نفسِ تصویر کی حرمت کے اعتبار سے مسلمان  یا غیر مسلم سے خواتین کے  تصویر  کھنچوانے کی حرمت میں کوئی فرق نہیں۔ البتہ اس طرح کے مواقع پر تصویر کا گناہ قانون بنانے والوں پر ہوگا نہ کہ تصویر کھنچوانے والے پر بشرطیکہ تصویر کھنچوانے والا تصویر گناہ سمجھ کر کھنچوائے۔  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200533

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں