بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا بیوی کے معافی مانگنے کے بعد طلاق سے رجوع کرلینا چاہیے؟


سوال

 ایک شخص بیرون ملک مقیم ہے، وہاں سے آکر ایک لڑکی سے نکاح کیا اور واپس بیرون ملک چلا گیا، لڑکی اپنے والدین کے کے گھر ہی رہتی رہی، لڑکی اس سے قبل ملازمت کرتی تھی، خاوند نے ملازمت سے منع کیا کہ اس کی نکاح شدہ عورت ملازمت نہیں کرے گی، عرصہ قریباً ڈھائی سال گزر گئے، نا خاوند واپس آیا نا اسے بلا سکا کچھ قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے.اس عرصہ میں خاوند کا رویہ بیوی کے ساتھ بہت برا تو نہیں تھا، لیکن بالکل اچھا بھی نہیں تھا، بات بات پر جھگڑاہوتا ہی رہتا تھا اور خاوند بیوی کی زیادہ پرواہ بھی نہیں کرتا تھا، بیوی ذہنی انتشار کا شکارہوتی گئی اور سوشل میڈیا پر اپنا وقت گزارنا شروع کردیا ،سوشل میڈیا پر ہر قسم کے لوگوں کے ساتھ ہنسی مذاق اور بات چیت شروع کردی، نکاح کے ڈھائی سال بعد رخصتی ہوئی، رخصتی کے چھ دن بعد خاوند دوبارہ بیرون ملک چلا گیا اور پھر پہلے سے زیادہ لڑائی جھگڑاہونے لگ گیا، بیوی نے خاوند کے رویہ سے تنگ آکر کسی غیر محرم سے چیٹنگ شروع کردی جو قریباً ایک سے ڈیڑھ ماہ میں کافی بڑھ گئی جب خاوند کو پتا چلا یہ سب تو اس نے بیوی سے پوچھ گچھ کی، بیوی نے اپنے کیے  کی معافی مانگی، توبہ کی، لیکن خاوند نے پھر بھی طلاق دے دی.

اب بیوی چاہتی ہے کہ خاوند اپنا فیصلہ واپس لے لے، لیکن خاوند راضی نہیں.راہ نمائی فرمائی جائے کہ کیا بیوی کے معافی مانگنے منت سماجت کے بعد بھی طلاق دینا جائز ہے؟

اور بیوی اپنے اپنے خاوند کو فیصلہ بدلنے پر کیسے راضی کرے؟

جواب

بغیر کسی عذر کے طلاق دینا مناسب نہیں ہے، لیکن اگر عذر ہو مثلاً بیوی نافرمان ہو، یا  نامحرموں سے  تعلقات رکھتی ہو، تو طلاق دی جاسکتی ہے،تاہم دونوں صورتوں میں اگر شوہر نے طلاق دے دی تو وہ طلاق واقع ہوجاتی ہے، باقی  اگر بیوی اپنے فعل پر پشیمان اور نادم ہو اور معافی مانگ لے اور شوہر سمجھتا ہے کہ نباہ ممکن ہے تو حتی الامکان گھر بچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

صورتِ مسئولہ میں اگر شوہر نے تین طلاقیں دے دی ہیں تو اب دونوں میاں بیوی کے درمیان حرمتِ مغلظہ ثابت ہوگئی ہے، شوہر کے لیے بیوی سے رجوع کرنا اور حلالہ شرعیہ کے بغیر دوبارہ نکاح کرنا جائز نہیں ہے، لیکن اگر تین طلاق سے کم دی ہیں، مثلا ایک یا دو طلاقیں  دی ہیں تو اس صورت میں بالترتیب شوہر کے پاس دو اور ایک طلاق کا اختیار باقی ہے، شوہر نے اگر صریح الفاظ سے طلاق دی ہے تو وہ عدت میں رجوع کرسکتا ہے، ورنہ عدت گزرنے کے بعد تجدید نکاح کیا جاسکتا ہے۔

خاندان کے بڑوں اور معزز حضرات کے سامنے معاملہ رکھ کر مل جل کر افہام وتفہیم سے مسئلہ حل کرلیا جائے، تاہم اگر شوہر  رجوع کرنے پر تیار نہیں ہے تو اس پر زبردستی نہیں کی جاسکتی ہے۔

"وعند تفریط المرأة في حقوق اللّٰه تعالیٰ الواجبة علیها مثل الصلاة ونحوها أن تکون غیر عفیفة أو خارجة إلی المخالفة والشقاق مندوب إلیة". (إعلاء السنن / کتاب الطلاق ۱۱؍۱۶۲ بیروت)
"إذا اعتادت الزوجة الفسق، علیه الأمر بالمعروف والنهي عن المنکر، والضرب فیما یجوز فیه؛ فإن لم تنزجر لایجب التطلیق علیه؛ لأن الزوج قد أدی حق والإثم علیها، هذا ما اقتضاه الشرع، وأما مقتضی غایة التقویٰ فهو أن یطلقها، لکن جواز الطلاق إنما هو إذا قدر علی أداء المهر وإلا فلایطلقها". (نفع المفتی والسائل ۱۶۳ )
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200015

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں