بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا انسان مجبورِ محض ہے؟


سوال

 ایک ہندو کو میں نے کہا تم مسلمان ہو جاؤ تو اس نے کہا کہ اگر اللہ مجھے مسلمان کرتا تو مسلمان کےگھر پیدا کرتا اب اللہ نے مجھے  ہندوکے گھر  پیدا کیا ہے اس لیےمیں ہندو صحیح ہوں، اب میں اس کو کیا جواب دوں؟

جواب

اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایسا مجبور پیدا نہیں  کیا ہے بلکہ اس کو اختیار دیا ہے کہ عقل کے فیصلہ اور نبی کی بتلائی ہوئی ہدایت سے جس اچھے کام کو کرنا چاہے وہ اپنے اختیار سے کرسکتا ہے، جس طرح انسان کھانے، پینے، بولنے اور چلنے پھرنے میں آزاد اور مختار ہے اور اپنے اختیار سے مذکورہ افعال کر سکتا ہے اسی طرح اسلام قبول کرنا بھی انسان کے اختیار میں ہے، اپنے آپ کو مجبورِ محض سمجھ کر اسلام قبول نہ کرنا نا سمجھی اور کم فہمی ہے لہذا جب  بندہ کو اللہ تعالیٰ نے صحیح اورغلط کی تمیز کرنے کے لیے عقل سلیم عطا فرمائی ہے تو اس کو استعمال کر کے صحیح راہ اختیار کرنا اس کی ذمہ داری ہوئی، حدیث پاک میں ہے:

مسند أحمد میں ہے:

"عن أبي هريرة، أن رسول الله - صلي الله عليه وسلم - قال: "كل مولود يُولد على الفطرة، فأبواه يُهِّودِانه وينصَّرانه أويمجِّسانه."

(ج نمبر ۷، ص نمبر ۳۴)

"ترجمہ: ہرپیدا ہونے والا بچہ فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے والدین اس کو یہودیت یا عیسائیت یا مجوسیت کی طرف لے جاتے ہیں۔"

لہذا جب ہر بچہ فطرت  پر پیدا ہوتا ہے، نہ کہ یہودیت و عیسائیت پر، اس لئے ہر انسان پر دلائل پر غور کرتے ہوئے اپنا اختیار استعمال کر کے ایمان لانا لازم اور ضروری ہو گا، اور یہ کہنا کہ "اگر اللہ مجھے مسلمان کرتا تو مسلمان کےگھر پیدا کرتا اب اللہ نے مجھے  ہندوکے گھر  پیدا کیا ہے اس لیےمیں ہندو صحیح ہوں" قابلِ حجت نہیں ہو گا۔

أصول الدين میں ہے:

"الجبر على ضربين جبر من الإجبار وجبر من الجبروت والإجبار يزيل الأفعال والجبروت يزيل الاستغناء فالعبد ليس بمجبور إجبارا يزيل الفعل بل هو مختار في الفعل تحت الجبروت مفتقر إلى الله عز وجل بورود التوفيق ووجود الاستطاعة فمن جهة تخليق الأفعال في أعضائه وإخراجها من العدم إلى الوجود مجبور يعني ليس بخالق الأفعال وإنما حصلت الأفعال بالتخليق فهو في استعمالها غير مجبور بل مختار في استعمالها."

(ص نمبر ۱۸۷)

شرح الطحاوية میں ہے:

"وقوله: وبين الجبر والقدر, تقدم الكلام أيضا على هذا المعنى، وأن العبد غير مجبور على أفعاله وأقواله، وأنها "ليست" بمنزلة حركات المرتعش وحركات الأشجار بالرياح وغيرها، وليست مخلوقة للعباد، بل هي فعل العبد وكسبه وخلق الله تعالى."

(ص نمبر ۵۲۰)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143908200673

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں