بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کھیل میں جوئے کی ایک صورت کا حکم


سوال

ہمارے کچھ دوست رات میں ایک جگہ اکھٹے ہو کر ایک گیم کھیلنے کے عادی ہیں، پہلے تو یہ سب محض ایک کھیل کی حد تک تھا، مگر اب  مذاق مستی میں ہی اس کھیل میں شرائط لگنا شروع ہو گئی  ہیں، شرط اس طرح سے ہیں کہ جو ہارے گا وہ سب کو کھانا کھلائے گا، یا چار میں سے جو دو آخری نمبر پر  رہیں گے وہ سب کو کھانا کھلائیں گے، تو کیا یہ جُوئے کے زمرے میں آئے گا؟ گو  کہ کوئی  بھی اس کو جُوا تسلیم کرنے پر راضی نہیں، لیکن کھانا کھلانے کا فیصلہ کھیل کی جیت یا ہار پر منحصر ہوتا ہے، منہ سے ہر کھلاڑی بری الذمہ ہونے کے لیے یہی کہتا ہے کہ جُوا نہیں،  ہارنے والا اپنی خوشی سے کھلائے گا، لیکن بہرحال فیصلہ  تو  ہار جیت پر ہی ہوتا  ہے، واضح  کردیجیے کہ یہ جُوا ہے یا نہیں؟ نیز جُوے کی آسان تعریف بھی بتا دیجیے!

جواب

صورتِ مسئولہ میں آپ نے اپنے  دوستوں کے کھیل کی جو صورت ذکر کی ہے اس میں  شرعاً "جوا"  پایا جاتا ہے؛ اس لیے اس کھیل میں ایسی شرط لگانا جائز نہیں ہو گا۔

میسر یا قمار کی تعریف یہ ہے کہ جس معاملہ میں کسی مال کا مالک بنانے کو ایسی شرط پر موقوف رکھا جائے جس کے وجود وعدم کی دونوں جانبیں مساوی ہوں اور اسی بنا  پر نفع خالص یا تاوان خالص برداشت کرنے کی دونوں جانبیں بھی برابر ہوں ،  مثلًا  یہ بھی احتمال ہے کہ زید  پر تاوان پڑجائے اور یہ بھی ہے کہ عمر پر پڑجائے،  اس کی جتنی قسمیں اور صورتیں  پہلے زمانے میں رائج تھیں یا آج رائج ہیں یا آئندہ پیدا ہوں،  وہ سب میسر اور قمار اور جوا کہلائے گا ۔ (  معارف القرآن  جلد:1، صفحہ:532)

«حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (6/ 403):

"(قوله: لأنه يصير قمارًا) لأن ‌القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي ‌القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص، و لا كذلك إذا شرط من جانب واحد لأن الزيادة و النقصان لاتمكن فيهما بل في أحدهما تمكن الزيادة، وفي الآخر الانتقاص فقط فلاتكون مقامرة لأنها مفاعلة منه زيلعي (قوله: يتوهم أن يسبقهما) بيان لقوله كفء، لفرسيهما أي يجوز أن يسبق أو يسبق (قوله: وإلا لم يجز) أي إن كان يسبق أو يسبق لا محالة لايجوز لقوله صلى الله عليه وسلم: " «من أدخل فرسًا بين فرسين و هو لايأمن أن يسبق فلا بأس به و من أدخل فرسًا بين فرسين و هو آمن أن يسبق فهو قمار»، رواه أحمد وأبو داود وغيرهما زيلعي (قوله: ثم إذا سبقهما إلخ) صورته أن يقال: إن سبقهما أخذ منهما ألفا إنصافا، وإن لم يسبق لم يعطهما شيئا، وإن سبق كل منهما الآخر فله مائة من مال الآخر فلايعطيهما شيئًا إن لم يسبقهما، ويأخذ منهما الجعل إن سبقهما ويجوز أن يعكس التصوير أخذا وإعطاء وفيما بينهما أيهما سبق أخذ من صاحبه ما شرط له؛ وإن سبقاه وجاءا معا فلا شيء لواحد منهما وإن سبق المحلل مع أحدهما ثم جاء الآخر فلا شيء على من مع المحلل بل له ما شرطه الآخر له كما لو سبق، ثم جاء المحلل ثم جاء الآخر ولا شيء للمحلل اهـ غرر الأفكار. قال الزيلعي: وإنما جاز هذا لأن الثالث لا يغرم على التقادير كلها قطعا ويقينا وإنما يحتمل أن يأخذ أو لا يأخذ فخرج بذلك من أن يكون قمارًا، فصار كما إذا شرط من جانب واحد، لأن ‌القمار هو الذي يستوي فيه الجانبان في احتمال الغرامة على ما بينا اهـ."

تفسير حدائق الروح والريحان في روابي علوم القرآن (8/ 55):

"والقمار كل لعب يشترط فيه أن يأخذ الغالب من المغلوب شيئًا سواء كان بالورق، أو بغيره كالقداح." 

الموسوعة الفقهية الكويتية (39/ 404):

"التعريف:
1 - الميسر لغة: قمار العرب بالأزلام، وقال صاحب القاموس هو اللعب بالقداح أو هو النرد، أو كل قمار. ولا يخرج المعنى الاصطلاحي عن المعنى اللغوي. وقال ابن حجر المكي: الميسر: القمار بأي نوع كان، وقال المحلي: صورة القمار المحرم التردد بين أن يغنم وأن يغرم.
وقال مالك: الميسر: ميسران، ميسر اللهو وميسر القمار فمن ميسر اللهو النرد والشطرنج والملاهي كلها، وميسر القمار ما يتخاطر الناس عليه. وبمثل ذلك قال ابن تيمية."

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144104200590

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں