بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کھنبی سے متعلق احادیثِ مبارکہ


سوال

کھنبی پکا کر کھانے یا اگانےکے متعلق اگر کوئی شرعی حکم ہے تو ازراہِ کرم بیان کر دیں!

جواب

کھنبی  نبابات کی اقسام میں سے ایک قسم ہے، کتبِ احادیث میں "الطب والرقی"کے تحت مختلف احادیث میں کھنبی میں شفاء اور اس کے پانی کا آنکھوں کے لیے مفید ہونا بیان کیاگیاہے۔ملاحظہ ہو:

صحیح بخاری میں ہے:

"عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم: الْكَمْأَةُ مِنَ الْمَنِّ وَمَاؤُهَا شِفَاءٌ لِلْعَيْنِ".

ترجمہ :"حضرت سعید بن زیدرضی اللہ عنہ   فرماتے ہیں کہ آں حضرت ﷺنے ارشاد فرمایا: کھنبی"منّ"  کی قسم ہے (خودرو ہے) اور اس کا پانی آنکھ کے لیے فائدہ مند ہے"۔

صحیح مسلم میں ہے :

"عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: « الْكَمْأَةُ مِنَ الْمَنِّ الَّذِى أَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى عَلَى بَنِى إِسْرَائِيلَ وَمَاؤُهَا شِفَاءٌ لِلْعَيْنِ".

ترجمہ :" حضرت سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "کھنبی "اس "منّ" میں سے ہے جو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر نازل فرمایا تھا اور اس کا پانی آنکھ کے لیے شفا ہے"۔

مشکاۃ شریف کی روایت میں ہے:

"عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " العجوة من الجنة وفيها شفاء من السم، والكمأة من المن وماؤها شفاء للعين".

ترجمہ :" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " عجوہ (جو کھجور کی سب سے اچھی قسم ہے ) جنت کی (کھجور ) ہے اور اس میں زہر  سے شفا ہے ،اور کھنبی "منّ" (کی قسم ) سے ہے اور اس کا پانی آنکھ کے لیے شفا ہے "۔

مذکورہ روایت کی تشریح میں علامہ نواب قطب الدین خان دہلوی ؒ مظاہر حق میں لکھتے ہیں:

" کمأۃ "  کاف کے زبر میم کے جزم اور ہمزہ کے زبر کے ساتھ ۔ کماۃ ، کھنبی کو کہتے ہیں، جو  از قسمِ نباتات  چربی کی مانند ایک چیز ہوتی ہے، اور اکثر برسات میں از خود پیدا ہو جاتی ہے ، عربی میں اس کو حشم الارض (زمین کی چربی) بھی کہتے ہیں، اور ہمارے یہاں اس کو عام طور پر سانپ کی چھتری کہا جاتا ہے۔ کھنبی حلال ہے اور بہت لوگ اس کو تل کر کھاتے بھی ہیں، اگرچہ بعض مقامات پر اس کو کھانا طبعی طور پر مکروہ سمجھا جاتا ہے؛ کیوں کہ وہاں اس کو کھانے کی عادت نہیں ہوتی ۔ " کھنبی من کی ایک قسم ہے"  کا مطلب یہ نہیں ہے، کھنبی اصل میں وہ "من "ہے جو اس آیت کریمہ ( وَاَنْزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوٰى) 2۔ البقرۃ : 57) (اور ہم نے بنی اسرائیل پر من و سلوی اتارا ) کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل پر اترتا تھا؛ کیوں کہ "من"  تو ترنجبین کی طرح کی ایک چیز تھی جو آسمان سے اترتی تھی اور یہ کھنبی زمین سے اگتی ہے، بلکہ " کھنبی، من کی ایک قسم ہے"  کہ جس طرح "من" اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت تھی ، جو بلا محنت و مشقت آسمان سے نازل ہوتی تھی اس طرح کھنبی بھی اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے جو بلا محنت و مشقت زمین سے پیدا ہوتی ہیں، یا یہ مراد ہے کہ کھنبی اپنے منافع و فوائد کے لحاظ سے من کے مشابہ ہے۔  " اس کا پانی آنکھ کے لیے شفا ہے"،  بعض علماء نے کہا ہے کہ اس کا پانی آنکھ کے لیے اس صورت میں شفا کا حکم رکھتا ہے جب کہ اس کو دوسری دواؤں (جیسے سرمہ یا طوطیا وغیرہ ) میں ملا کر آنکھوں میں لگایا جائے، اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ فقط کھنبی کا پانی بھی آنکھ کے لیے فائدہ ہے، اور حدیث کے مطلق مفہوم کی بنا  پر یہی بات زیادہ صحیح ہے، بعض علماء نے اپنا ذاتی مشاہدہ بیان کیا ہے کہ انہوں نے ایک ایسے شخص کو دیکھا جس کی بصارت جاتی رہی تھی اس نے کھنبی کا پانی لگایا تو اس کی بصارت درست ہو گئی ۔  حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ قول بھی نقل کیا جاتا ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میں نے تین یا پانچ کھنبیاں لے کر ان کو نچوڑا اور ان کا پانی ایک شیشی میں رکھا ، ایک چھوکری نے اس کو آنکھوں سے لگایا تو وہ اچھی ہو گئی  "۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200994

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں