بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کھجور خرید کر دوسرے کو آدھے آدھے نفع کی شرط پر بیچنے کے لیے دینا اور اس کے جواز کی صورتیں


سوال

میرا  ایک دوست ایران کا شہری ہے، ہم کھجور کا مشترک کاروبار بایں طور کرتے ہیں کہ مثلًا  سال گزشتہ  اس نے  مجھے 20 ٹن کھجور بھیجنے کا کہا کہ کراچی بیچ کر جو نفع ہو وہ آدھا آدھا،پھر اسے وہی ایران میں مناسب ریٹ ملا تو اس نے مجھے بتائی بغیر 12ٹن کھجور بیچ دی،بعد میں 8ٹن مجھے بھجوادیے،میں نے یہاں  8ٹن کھجور بیچی،اب جب مجھے پتا  چلا کہ 12ٹن وہ بیچ چکا ہے  ساتھ میں 8ٹن  کھجور  سے نفع  کا اپنا حصہ بھی مانگ رہا ہے تو میں نے اسے کہا کہ  مجھے 12ٹن کے حاصل کردہ نفع کا حصہ دو تو میں تمہیں 8ٹن کے نفع کا حصہ  دوں گا،تو اس نے مجھے جواب میں کہا کہ میں اپنے علاقے کے عالم صاحب  سے پوچھا ہے، انہوں نے کہا کہ اس معاملہ میں سارا نفع تمہارا (یعنی سائل کے شریک کا) ہے،  اور میرے بارے میں کہا کہ اس کا کوئی حق نہیں۔

مجھے بہت پریشانی ہے، آپ راہ نمائی فرمائیں!

نوٹ:کاروبار تقریبًا ایسا ہی ہوتا ہے  کہ ایران والا عمومًا ادھار میں(بسا اوقات نقد میں) مال  لے کر ہمارے ہاں بھیجتا ہے،  پھر ہم یہاں بیچ کر اصل مال نفع سمیت جو کہ نصف نصف طے ہوتا ہے بھیج دیتے ہیں اور بسا  اوقات  ہماری جانب  سے بھی نقد ادائیگی ہوتی ہے اور نفع کی ادائیگی مال بکنے کے بعد،اگر یہ ناجائز ہو تو جواز کی تفصیلی صورت میں  راہ نمائی کیجیے گا!

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر ایران والا شخص اپنا سرمایہ لگاکر مال خرید رہا ہے  اور  پاکستان والے شخص نے سرمایہ نہیں لگایا تو یہ شرکت درست نہیں ہوئی، اس لیے شرکتِ مال میں دونوں طرف سے مال کا ہونا ضروری ہے جو کہ یہاں نہیں ہے، اور یہ معاملہ مضاربت کا بھی نہیں ہے ؛  اس لیے کہ  مضاربت میں سرمایہ کا نقد ہونا ضروری ہے، یہاں ایران میں رہنے والا شخص کھجور خرید کر پاکستان میں رہنے والے کو بیچنے کے لیے دیتا ہے؛  اس لیے یہ مضاربت بھی درست نہیں ہے، لہذا اس صورت میں   آپ کے دوست نے جو بارہ ٹن کھجور خرید کر ایران میں بیچ  دیے، اس کے نفع کا حق دار  وہی ہے، اور باقی آٹھ  ٹن جو آپ نے پاکستان میں فروخت  کیے تو  چوں کہ یہ مضاربت یا شرکت نہیں تھی؛  اس لیے آپ کو  صرف اجرتِ مثل (یعنی اس طرح مال فروخت کرنے کی عمومًا مارکیٹ میں  جو اجرت ہوتی ہے، وہ) ملے گی،(بشرط یہ کہ وہ اجرتِ مثل آپ کے طے شدہ نفع سے زائد نہ ہو)  اور سارا نفع ایران والے شخص کا  ہوگا۔

اور اگر ابتدا  میں شرکت کا عقد  اس طرح کیا کہ  دونوں کے پاس مال نہیں ہے، اور دونوں  نے یہ عقد کیا کہ ہم ادھار مال خریدیں گے  اور پھر اس کو نقد فروخت کرکے اس کا ادھار ادا کردیں گے اور  اس میں  جو نفع ہوگا وہ آپس میں آدھا آدھا  تقسیم کریں گے اور اس عقد کے بعد  ایران والا شخص ادھار  مال خریدتا ہے تو  جتنا مال اسی شرکت کی جنس میں سے خریدا  وہ  دونوں شریکوں میں مشترک ہوگا اور دونوں پر اس کا ضمان بھی ہوگا،پھر خواہ  وہ  ایران میں فروخت کیا جائے یا پاکستان میں نفع میں دونوں طے شدہ تناسب کے  حساب  سے شریک  ہوں  گے۔

اور اگر ابتدا میں اس طرح کا کوئی عقد نہیں ہوا، یا ایک ہی شخص سرمایہ لگا کر  مال خرید رہا ہے تو  اس طرح شرکت درست  نہیں ہوگی، البتہ اس صورت میں اس  طرح کاروبار کے جواز کی صورتیں درج ذیل ہیں:

1۔۔  پاکستان میں رہنے والا شخص ایران میں رہنے والے شخص کے لیے کمیشن پر کام کرے،  مثلًا  ایران سے ایک شخص کھجوریں پاکستان بھیجے اور پاکستان میں رہنے والا اس کو فروخت کردے اور شروع ہی سے طے کرلے کہ میں آپ کا یہ مال فروخت کردوں گا اور اس کا اتنا طے شدہ کمیشن لوں گا ۔

2۔۔ایران میں رہنے والا شخص وہاں سے کھجور لے کر پاکستان میں رہنے والے شخص کو  اپنا نفع رکھ کر ادھار فروخت کردے،  اس صورت میں سارا مال پاکستان میں رہنے  والے کا ہوگا، اور  وہ  مال فروخت کرے اس  کی قیمت ادا کردے، اس  کی مثال یہ  ہوسکتی  ہے کہ ایران میں رہنے والے شخص نے ایک لاکھ  کی کھجوریں خریدیں ، وہ  اندازہ لگالے کہ مجھے اس پر کتنا نفع ہوسکتا ہے، اندازے  کے مطابق وہ اس پر اضافہ کرکے پاکستانی شخص کو ادھار مثلًا ڈیڑھ لاکھ کا بیچ دے، اور  پھر پاکستان میں رہنے والا شخص اس کو  جتنے کا چاہے فروخت کردے اور اس کی قیمت ڈیڑھ لاکھ بعد میں ادا کردے۔

3۔۔ پاکستان میں رہنے والا شخص بھی کچھ  پیسے ملالے ، اور دونوں شریک بن جائیں ، اور باہمی رضامندی سے دونوں شریک نفع فیصد کے حساب سے طے کرلیں، اس کے بعد ایران میں رہنے والا شخص  اس مشترکہ رقم سے جو کھجور خریدے گا  اس میں دونوں شریک ہوں گے، اور نفع باہمی رضامندی سے جو طے ہوا ہے اس میں دونوں شریک ہوں گے۔نقصان  سرمائے کے تناسب  کے مطابق ہوگا۔

الفتاوى الهندية (4/ 285):

"(منها) أن يكون  رأس المال دراهم أو دنانير عند أبي حنيفة وأبي يوسف رحمهما الله تعالى وعند محمد - رحمه الله تعالى - أو فلوسا رائجة حتى إذا كان رأس مال المضاربة ما سوى الدراهم والدنانير والفلوس الرائجة لم تجز المضاربة إجماعا وإن كان رأس مال المضاربة فلوسا رائجة لا تجوز على قولهما وعلى قول محمد - رحمه الله - تجوز هكذا في المحيط. والفتوى على أنه تجوز كذا في التتارخانية ناقلًا عن الكبرى."

وفيه أيضًا (4/ 288):

"المضارب إذا عمل في المضاربة الفاسدة وربح يكون جميع الربح لرب المال وللمضارب أجر مثله فيما عمل لايزاد على المسمى في قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - وإن لم يربح المضارب كان له أجر مثله، كذا في فتاوى قاضي خان."

و فيه أيضًا (2/ 327):

"(أما شركة الوجوه) فهو أن يشتركا، وليس لهما مال لكن لهما وجاهة عند الناس فيقولان: اشتركنا على أن نشتري بالنسيئة ونبيع بالنقد على أن ما رزق الله - سبحانه وتعالى - من ربح فهو بيننا على شرط كذا، كذا في البدائع. وهكذا في المضمرات، وتكون مفاوضة بأن يكونا من أهل الكفالة والمشترى بينهما نصفين وعلى كل واحد منهما نصف ثمنه ويتساويا في الربح ويتلفظا بلفظ المفاوضة أو يذكرا مقتضياتها فتتحقق الوكالة والكفالة في الأثمان والمبيعات، وإن فات شيء منها كانت عنانا، كذا في فتح القدير، وإن أطلقت كانت عنانا، كذا في الظهيرية. والعنان منهما تجوز مع اشتراط التفاضل في ملك المشترى وينبغي أن يشترطا الربح في هذه الشركة على قدر اشتراط الملك في المشترى حتى لو تفاضلا في ملك المشترى واشترطا التساوي في الربح بينهما أو كان على العكس لا يجوز هذا الشرط ويكون الربح بينهما على قدر ما اشترطا الملك بينهما، كذا في المحيط. قال محمد - رحمه الله تعالى -، وإذا اشتركا شركة عنان بأموالهما ووجوههما فاشترى أحدهما متاعا، فقال الشريك الذي لم يشتر: المتاع من شركتنا، و قال المشتري: هو لي وإنما اشتريته بمالي ولنفسي، فإن كان المشتري يدعي الشراء لنفسه بعد الشركة فهو بينهما على الشركة إذا كان المتاع من جنس تجارتهما."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200037

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں