بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کھانا کھاتے وقت خاموشی کا حکم


سوال

ہم بچپن سے سنتے آ رہے ہیں کہ کھانا خاموشی سے کھانا چاہیے،  لیکن ایک تبلیغی جماعت کے امیر صاحب نے اس سے منع فرمایا؛ کیوں کہ اس سے یہود و نصاریٰ  کی مشابہت ہوتی ہے. اس بارے میں  راہ نمائی  فرمائیں  کہ کیا حکم ہے؟  اور سنت طریقہ کیا ہے؟

جواب

کھانا کھاتے ہوئے خاموش رہنا غیر قوموں کا طریقہ ہے، فتاویٰ ہندیہ اور فتاویٰ شامی میں اسے مجوسیوں کا طریقہ لکھا گیا ہے، لہٰذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے،  کھانے کھاتے ہوئے اچھی باتوں کے تذکرے،  مثلاً:  نیک لوگوں کی حکایات وغیرہ بہتر ہے۔ رسول اللہ ﷺ سے کھانے کے دوران گفتگو ثابت ہے، صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں اس کا ذکر موجود ہے۔

 امام نووی رحمہ اللہ  صحیح مسلم کی شرح میں لکھتے ہیں: 
"اس حدیث میں کھانا کھانے والوں کو مانوس کرنے کے لیے بات کرنے کا ذکر ہے، جو کہ مستحب ہے". (شرح صحيح مسلم، (14/7)

البتہ اگر کوئی کھاتے وقت خاموش رہنے کو نہ ضروری سمجھے، نہ اسے نیکی سمجھے،  اور بات کرنے کا مناسب موقع نہ ہونے کی وجہ سے خاموش رہے تو  اس میں حرج نہیں ہے۔

آپ کے مسائل اور ان کا حل میں ہے :

’’کھانا کھاتے ہوئے خاموش نہیں رہنا چاہیے، کیوں کہ یہ عجمیوں کا طریقہ ہے،  بلکہ ان کو اچھی باتیں کرتے رہنا چاہیے اور نیک لوگوں کے حالات و حکایات بیان کرتے رہنا چاہیے‘‘۔ (۸ / ۳۸۵، مکتبہ لدھیانوی)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6 / 340):
"ويكره السكوت حالة الأكل؛ لأنه تشبه بالمجوس، و يتكلم بالمعروف".

الفتاوى الهندية (5 / 345):
"يكره السكوت حالة الأكل؛ لأنه تشبه بالمجوس، كذا في السراجية. ولايسكت على الطعام ولكن يتكلم بالمعروف وحكايات الصالحين، كذا في الغرائب".
فقط واللہ اعلم

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ کیجیے:

کھانے کے دوران گفتگو کرنا


فتوی نمبر : 144107200160

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں