بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

علم جفر کا حکم


سوال

ہمارے علاقے میں ایک شخص ہے جو صفحہ میں حساب لگا کر یا کچھ پڑھ کر بتا تا ہے کہ فلاں کام کرو یا فلاں کام نا کرو مثلاً۔ فلاں جگہ شادی کرو یا نہ کرو اسی طرح فلاں جگہ کا سفر کر نا ٹھیک ہے یا نہیں ہے یا فلاں چیز خرید نا ٹھیک ہے یا نہیں ہے؟ اور اس طرح کی بہت سی باتیں کر تا ہے۔اب آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ ایسے شخص سے پوچھنا ٹھیک ہے یا نہیں اور اس کا بتا نا ٹھیک ہے؟ اور جو لوگ اس طرح کے کام کرتے ہیں وہ کاہن کے حکم میں داخل ہیں یا نہیں؟

جواب

 علم جفر ایک علم ہے جس میں اسرار حروف سے بحث کی جاتی ہے جس کے ماہرین کا دعویٰ ہے کہ وہ اس کی مدد سے آئندہ حالات و واقعات کا پتا لگا لیتے ہیں، (مصباح اللغات)

  علم جفر کے ذریعے بہت سی چیزیں معلوم کی جاتی ہیں، لیکن علم جفر کے ذریعے کسی چیز کا معلوم کرنا شرعی حجت نہیں ہے اور یہ سب لغو اور بے کار ہے، اس علم کو سیکھنا، سیکھانا حرام ہے، اور اس کے مدعی کے پاس کوئی بات پوچھنے کے لیے جانا بھی ناجائز ہے، اور اس کے نتائج کو یقینی سمجھنا کفر ہے ۔(فتاوی محمودیہ20/84۔احسن الفتاوی 8/231)

لہذا اگر مذکورہ شخص علم جفر کی مدد سے یہ کام کرتا ہے تو اس کا شرعی حکم ماقبل میں ذکر ہوگیا۔

یہ ملحوظ رہے کہ اگر کوئی شخص کسی نیک متقی عالم یا بزرگ کے پاس جاکر استخارہ کرواتا ہے کہ میں یہ کام کرنا چاہتا ہوں آپ استخارہ کرکے بتادیں، اور وہ بزرگ یا عالم سنت طریقہ کے مطابق استخارہ کرکے اس کام کے بارے میں مشورہ دیتا ہے تو یہ اس میں داخل نہیں ہے،اس لیے کہ استخارہ میں اللہ سے کسی مباح  کام کے  کرنے کا مشورہ  ہوتا ہے، یہ اطمینان قلب کے لیے ہوتا ہے، اس میں غیب کی خبریں نہیں بتائی جاتیں اور نہ ہی اس کا دعویٰ ہوتا ہے،  اگرچہ استخارہ کا سنت طریقہ یہ ہی کہ انسان خود استخارہ کرے کسی اور سے استخارہ نہ کروائے۔

حاشية ابن عابدين (رد المحتار، مقدمة) (1/ 43): 
"وحرامًا، وهو علم الفلسفة والشعبذة والتنجیم والرمل وعلوم الطبائعيين والسحر والكهانة، ودخل في الفلسفة المنطق، ومن هذا القسم علم الحرف. 

(قوله: والرمل) هو علم بضروب أشكال من الخطوط والنقط بقواعد معلومة تخرج حروفا تجمع ويستخرج جملة دالة على عواقب الأمور، وقد علمت أنه حرام قطعا وأصله لإدريس عليه السلام  ط أي فهو شريعة منسوخة. وفي فتاوى ابن حجر أن تعلمه وتعليمه حرام شديد التحريم لما فيه من إيهام العوام أن فاعله يشارك الله تعالى في غيبه.
(قوله: علم الحرف) يحتمل أن المراد به الكاف الذي هو إشارة إلى الكيمياء، ولا شك في حرمتها لما فيها من ضياع المال والاشتغال بما لا يفيد. ويحتمل أن المراد به جمع حروف يخرج منها دلالة على حركات. ويحتمل أن المراد علم أسرار الحروف بأوفاق الاستخدام وغير ذلك. اهـ. ط. ويحتمل أن المراد الطلسمات، وهي كما في شرح اللقاني نقش أسماء خاصة لها تعلق بالأفلاك والكواكب على زعم أهل هذا العلم في أجسام من المعادن أو غيرها تحدث لها خاصة ربطت بها في مجاري العادات. اهـ.
هذا وقد ذكر العلامة ابن حجر في باب الأنجاس من التحفة أنه اختلف في انقلاب الشيء عن حقيقته  كالنحاس إلى الذهب هل هو ثابت؟ فقيل نعم لانقلاب العصا ثعبانا حقيقة وإلا لبطل الإعجاز. وقيل لا لأن قلب الحقائق محال. والحق الأول إلى أن قال: تنبيه، كثيرا ما يسأل عن علم الكيمياء وتعلمه هل يحل أو لا، ولم نر لأحد كلاما في ذلك. والذي يظهر أنه ينبني على هذا الخلاف، فعلى الأول من علم العلم الموصل لذلك القلب علما يقينيا جاز له علمه وتعليمه إذ لا محذور فيه بوجه، وإن قلنا بالثاني أو لم يعلم الإنسان ذلك العلم اليقيني وكان ذلك وسيلة إلى الغش فالوجه الحرمة اهـ ملخصا.
وحاصله أنه إذا قلنا بإثبات قلب الحقائق وهو الحق جاز العمل به وتعلمه؛ لأنه ليس بغش لأن النحاس ينقلب ذهبا أو فضة حقيقة. وإن قلنا إنه غير ثابت لا يجوز؛ لأنه غش كما لا يجوز لمن لا يعلمه حقيقة لما فيه من إتلاف المال أو غش المسلمين والظاهر أن مذهبنا ثبوت انقلاب الحقائق بدليل ما ذكروه في انقلاب عين النجاسة. كانقلاب الخمر خلا والدم مسكا ونحو ذلك، والله أعلم.
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144003200085

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں