بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کپڑا تیاری کا آرڈر دینا


سوال

مال کا advance سودا کرنا ، ایسا مال جو ابھی تیار نہ  ہو اس کی تجارت کا کیا حکم ہے؟  

مثال کے طور پر   کپڑا (لون پرنٹ ) کی پارٹی پیسے پہلے لے لیتی ہے اور اسی ٹائم کپڑا خرید کر لیتی ہے . اور مال چار ماہ بعد دیتی ہے،  کیا اس طرح کرنا جائز ہے اور اس  طرح کا  منافع جائز ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں کپڑا بنانے والی مل ایڈوانس پیسے لے کر ایک متعین وقت میں کپڑا تیار کرکے جو دیتی ہیں، اسے شریعت کی اصطلاح میں ’’استصناع‘‘  کہا جاتا ہے،  جس کے صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ خریدار ( آڈر دینے) والے کی منشا ( ڈیمانڈ) کے مطابق چیز تیار کیا جائے، اس میں کسی قسم کا دھوکا ( کپڑے کے گرامیج میں کمی، وغیرہ)  نہ دیا جائے، پس اگر  کپڑا مل مالکان اس کی پابندی کرتے ہوں تو ایسی صورت میں مذکورہ طریق پر خریداری اور منافع سب جائز ہوگا۔

البتہ اگر سوال کا تعلق کپڑے کے ہول سیلر اور ریٹیلر کے درمیان خریداری سے ہو تو اس صورت میں ایسے سودے کو شریعت کی اصطلاح میں ’’بیعِ سلم‘‘  کہا جاتا ہے، جس کے صحیح ہونے کے لیے شرائطِ  سلم کو ملحوظ رکھنا ضروری ہوگا۔

بیع سلم ایسی چیزوں میں ہی ہوسکتی ہے جن کی مقدار اور صفات کی تعیین کی جاسکتی ہو۔ اور بیعِ سلم کے وقت ان اشیاء کی جنس، صفات اور مقدار  اس طور پر متعین کرنا ضروری ہے کہ ادائیگی کے وقت  فریقین کا تنازع نہ ہو. اور وہ چار قسم کی چیزیں ہیں:

1-کیلی: جن کی مقدار پیمانے سے ناپ کر متعین کی جاتی ہے جیسے : تیل وشہد وغیرہ.

2- وزنی: جن کی خریدوفروخت باٹ وترازو وغیرہ سے تول کر کی جاتی ہے، جیسے: چاول، چنے وغیرہ.

3- ذراعی: جن کی پیمائش ہاتھ اور گز وغیرہ سے کی جاتی ہے، جیسے: کپڑے وغیرہ.

4- عددی متقارب: جو گن کر دی جاتی ہیں اور ان کے افراد میں تفاوت بہت کم ہوتا ہے. جیسے: اخروٹ،انڈے، اینٹ، کمپنی کے جوس یا وہ اشیاء جن کے افراد میں تفاوت نہیں ہوتا وغیرہ.

’’سلم‘‘  کا معاملہ ان ہی چیزوں میں درست ہوسکتا ہے.

بیع سلم کے جواز کی دیگرلازمی شرائط یہ ہیں:

 خریدار مجلسِ عقد ہی کے اندر پوری قیمت ادا کردے،ادھارجائز نہیں ہے۔

مبیع (فروخت کردہ چیز) کی حوالگی ادھار ہو اور اس کے لیے مدت مقرر ہو ۔ 

جس چیز کی بیع ہو وہ عقد کے وقت سے حوالگی کے وقت تک بازار میں موجود ہو۔

بیچی گئی چیز کی حوالگی کا وقت اور مقام نیز مبیع کی حوالگی (میں اگر اخراجات ہوں تو حوالگی)کے اخراجات کا تعین پہلے کیاجائے تاکہ فریقین کا تنازع نہ ہو۔

اگر قیمت نقد رقم کے علاوہ ایسی چیز مقرر کی گئی جو ناپ یا تول کردی جاتی ہے تو اس کی جنس، صفات اور مقدار کا تعین بھی ضروری ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قَوْلُهُ: هُوَ لُغَةً طَلَبُ الصَّنْعَةِ) أَيْ أَنْ يَطْلُبَ مِنْ الصَّانِعِ الْعَمَلَ فَفِي الْقَامُوسِ: الصِّنَاعَةُ: كَكِتَابَةِ حِرْفَةُ الصَّانِعِ وَعَمَلُهُ الصَّنْعَةُ اهـ فَالصَّنْعَةُ عَمَلُ الصَّانِعِ فِي صِنَاعَتِهِ أَيْ حِرْفَتِهِ، وَأَمَّا شَرْعًا: فَهُوَ طَلَبُ الْعَمَلِ مِنْهُ فِي شَيْءٍ خَاصٍّ عَلَى وَجْهٍ مَخْصُوصٍ يُعْلَمُ مِمَّا يَأْتِي، وَفِي الْبَدَائِعِ مِنْ شُرُوطِهِ: بَيَانُ جِنْسِ الْمَصْنُوعِ، وَنَوْعِهِ وَقَدْرِهِ وَصِفَتِهِ، وَأَنْ يَكُونَ مِمَّا فِيهِ تَعَامُلٌ، وَأَنْ لَا يَكُونَ مُؤَجَّلًا وَإِلَّا كَانَ سَلَمًا وَعِنْدَهُمَا الْمُؤَجَّلُ اسْتِصْنَاعٌ إلَّا إذَا كَانَ مِمَّا لَا يَجُوزُ فِيهِ الِاسْتِصْنَاعُ، فَيَنْقَلِبُ سَلَمًا فِي قَوْلِهِمْ جَمِيعًا (قَوْلُهُ: بِأَجَلٍ) مُتَعَلِّقٌ بِمَحْذُوفٍ حَالٌ مِنْ الِاسْتِصْنَاعِ، لَكِنْ فِيهِ مَجِيءُ الْحَالِ مِنْ الْمُبْتَدَأِ، وَهُوَ ضَعِيفٌ وَلَايَصِحُّ كَوْنُهُ خَبَرًا، لِأَنَّهُ لَايُفِيدُ بَلْ الْخَبَرُ هُوَ قَوْلُهُ: سَلَمٌ وَالْمُرَادُ بِالْأَجَلِ مَا تَقَدَّمَ وَهُوَ شَهْرٌ فَمَا فَوْقَهُ قَالَ الْمُصَنِّفُ: قَيَّدْنَا الْأَجَلَ بِذَلِكَ لِأَنَّهُ إذَا كَانَ أَقَلَّ مِنْ شَهْرٍ كَانَ اسْتِصْنَاعًا وَإِنْ جَرَى فِيهِ تَعَامُلٌ، وَإِلَّا فَفَاسِدٌ إنْ ذَكَرَهُ عَلَى وَجْهِ الِاسْتِمْهَالِ وَإِنْ كَانَ لِلِاسْتِعْجَالِ بِأَنْ قَالَ عَلَى أَنْ تَفْرُغَ مِنْهُ غَدًا أَوْ بَعْدَ غَدٍ كَانَ صَحِيحًا اهـ وَمِثْلُهُ فِي الْبَحْرِ وَغَيْرِهِ وَسَيَذْكُرُهُ الشَّارِحُ. (قَوْلُهُ: ذُكِرَ عَلَى سَبِيلِ الِاسْتِمْهَالِ إلَخْ) كَانَ الْوَاجِبُ عَدَمَ ذِكْرِ هَذِهِ الْجُمْلَةِ لِمَا عَلِمْت مِنْ أَنَّ الْمُؤَجَّلَ بِشَهْرٍ فَأَكْثَرَ سَلَمٌ، وَالْمُؤَجَّلَ بِدُونِهِ إنْ لَمْ يَجْرِ فِيهِ تَعَامُلٌ، فَهُوَ اسْتِصْنَاعٌ فَاسِدٌ إلَّا إذَا ذُكِرَ الْأَجَلُ لِلِاسْتِعْجَالِ فَصَحِيحٌ كَمَا أَفَادَهُ ط وَقَدْ تَبِعَ الشَّارِحُ ابْنَ كَمَالٍ (قَوْلُهُ: سَلَمٌ) أَيْ فَلَايَبْقَى اسْتِصْنَاعًا، كَمَا فِي التَّتَارْخَانِيَّة، فَلِذَا قَالَ الشَّارِحُ: فَتُعْتَبَرُ شَرَائِطُهُ أَيْ شَرَائِطُ السَّلَمِ، وَلِهَذَا لَمْ يَكُنْ فِيهِ خِيَارٌ مَعَ أَنَّ الِاسْتِصْنَاعَ فِيهِ خِيَارٌ لِكَوْنِهِ عَقْدًا غَيْرَ لَازِمٍ كَمَا يَأْتِي تَحْرِيرُهُ (قَوْلُهُ: جَرَى فِيهِ تَعَامُلٌ) كَخُفٍّ وَطَسْتٍ وَقُمْقُمَةٍ وَنَحْوِهَا دُرَرٌ (قَوْلُهُ: أَمْ لَا) كَالثِّيَابِ وَنَحْوِهَا دُرَرٌ". (مَطْلَبٌ فِي الِاسْتِصْنَاعِ، ٥ / ٢٢٣ - ٢٢٤، ط: دار الفكر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وَأَمَّا شَرَائِطُ جَوَازِهِ (فَمِنْهَا) : بَيَانُ جِنْسِ الْمَصْنُوعِ، وَنَوْعِهِ وَقَدْرِهِ وَصِفَتِهِ؛ لِأَنَّهُ لَا يَصِيرُ مَعْلُومًا بِدُونِهِ. (وَمِنْهَا) : أَنْ يَكُونَ مِمَّا يَجْرِي فِيهِ التَّعَامُلُ بَيْنَ النَّاسِ - مِنْ أَوَانِي الْحَدِيدِ وَالرَّصَاصِ، وَالنُّحَاسِ وَالزُّجَاجِ، وَالْخِفَافِ وَالنِّعَالِ، وَلُجُمِ الْحَدِيدِ لِلدَّوَابِّ، وَنُصُولِ السُّيُوفِ، وَالسَّكَاكِينِ وَالْقِسِيِّ، وَالنَّبْلِ وَالسِّلَاحِ كُلِّهِ، وَالطَّشْتِ وَالْقُمْقُمَةِ، وَنَحْوِ ذَلِكَ - وَلَا يَجُوزُ فِي الثِّيَابِ؛ لِأَنَّ الْقِيَاسَ يَأْبَى جَوَازَهُ، وَإِنَّمَا جَوَازُهُ - اسْتِحْسَانًا - لِتَعَامُلِ النَّاسِ، وَلَا تَعَامُلَ فِي الثِّيَابِ. (وَمِنْهَا) : أَنْ لَا يَكُونَ فِيهِ أَجَلٌ، فَإِنْ ضَرَبَ لِلِاسْتِصْنَاعِ أَجَلًا؛ صَارَ سَلَمًا حَتَّى يُعْتَبَرَ فِيهِ شَرَائِطُ السَّلَمِ، وَهُوَ قَبْضُ الْبَدَلِ فِي الْمَجْلِسِ، وَلَا خِيَارَ لِوَاحِدٍ مِنْهُمَا إذَا سَلَّمَ الصَّانِعُ الْمَصْنُوعَ عَلَى الْوَجْهِ الَّذِي شُرِطَ عَلَيْهِ فِي السَّلَمِ (وَهَذَا) قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ - رَحِمَهُ اللَّهُ - وَقَالَ أَبُو يُوسُفَ وَمُحَمَّدٌ: هَذَا لَيْسَ بِشَرْطٍ، وَهُوَ اسْتِصْنَاعٌ عَلَى كُلِّ حَالٍ - ضَرَبَ فِيهِ أَجَلًا أَوْ لَمْ يَضْرِبْ - وَلَوْ ضَرَبَ لِلِاسْتِصْنَاعِ فِيمَا لَا يَجُوزُ فِيهِ الِاسْتِصْنَاعُ - كَالثِّيَابِ وَنَحْوِهَا - أَجَلًا؛ يَنْقَلِبُ سَلَمًا فِي قَوْلِهِمَا جَمِيعًا (وَجْهُ) قَوْلِهِمَا: أَنَّ الْعَادَةَ جَارِيَةٌ بِضَرْبِ الْأَجَلِ فِي الِاسْتِصْنَاعِ، وَإِنَّمَا يُقْصَدُ بِهِ تَعْجِيلُ الْعَمَلِ لَا تَأْخِيرُ الْمُطَالَبَةِ؛ فَلَا يَخْرُجُ بِهِ عَنْ كَوْنِهِ اسْتِصْنَاعًا، أَوْ يُقَالُ: قَدْ يُقْصَدُ بِضَرْبِ الْأَجَلِ تَأْخِيرُ الْمُطَالَبَةِ، وَقَدْ يُقْصَدُ بِهِ تَعْجِيلُ الْعَمَلِ؛ فَلَا يَخْرُجُ الْعَقْدُ عَنْ مَوْضُوعِهِ، مَعَ الشَّكِّ وَالِاحْتِمَالِ، بِخِلَافِ مَا لَا يَحْتَمِلُ الِاسْتِصْنَاعَ؛ لِأَنَّ مَا لَا يَحْتَمِلُ الِاسْتِصْنَاعَ لَا يُقْصَدُ بِضَرْبِ الْأَجَلِ فِيهِ تَعْجِيلُ الْعَمَلِ؛ فَتَعَيَّنَ أَنْ يَكُونَ لِتَأْخِيرِ الْمُطَالَبَةِ بِالدَّيْنِ، وَذَلِكَ بِالسَّلَمِ وَلِأَبِي حَنِيفَةَ: - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - أَنَّهُ إذَا ضَرَبَ فِيهِ أَجَلًا؛ فَقَدْ أَتَى بِمَعْنَى السَّلَمِ؛ إذْ هُوَ عَقْدٌ عَلَى مَبِيعٍ فِي الذِّمَّةِ مُؤَجَّلًا، وَالْعِبْرَةُ فِي الْعُقُودِ لِمَعَانِيهَا لَا لِصُوَرِ الْأَلْفَاظِ أَلَا تَرَى أَنَّ الْبَيْعَ يَنْعَقِدُ بِلَفْظِ التَّمْلِيكِ، وَكَذَا الْإِجَارَةُ، وَكَذَا النِّكَاحُ عَلَى أَصْلِنَا (وَلِهَذَا) صَارَ سَلَمًا فِيمَا لَايَحْتَمِلُ الِاسْتِصْنَاعَ - كَذَا هَذَا - وَلِأَنَّ التَّأْجِيلَ يَخْتَصُّ بِالدُّيُونِ؛ لِأَنَّهُ وُضِعَ لِتَأْخِيرِ الْمُطَالَبَةِ وَتَأْخِيرُ الْمُطَالَبَةِ إنَّمَا يَكُونُ فِي عَقْدٍ فِيهِ مُطَالَبَةٌ، وَلَيْسَ ذَلِكَ إلَّا السَّلَمُ؛ إذْ لَا دَيْنَ فِي الِاسْتِصْنَاعِ أَلَا تَرَى أَنَّ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا خِيَارَ الِامْتِنَاعِ مِنْ الْعَمَلِ قَبْلَ الْعَمَلِ بِالِاتِّفَاقِ؟ ثُمَّ إذَا صَارَ سَلَمًا؛ يُرَاعَى فِيهِ شَرَائِطُ السَّلَمِ، فَإِنْ وُجِدَتْ صَحَّ، وَإِلَّا فَلَا". ( كِتَابُ الِاسْتِصْنَاعِ، فَصْلٌ فِي شَرَائِطُ جَوَاز الِاسْتِصْنَاعِ، ٥/ ٣، ط: دار الكتب العلمية)

تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:

"بَابُ السَّلَمِ (هُوَ) لُغَةً كَالسَّلَفِ وَزْنًا وَمَعْنًى وَشَرْعًا (بَيْعُ آجِلٍ) وَهُوَ الْمُسْلَمُ فِيهِ (بِعَاجِلٍ) وَهُوَ رَأْسُ الْمَالِ (وَرُكْنُهُ رُكْنُ الْبَيْعِ) حَتَّى يَنْعَقِدَ بِلَفْظِ بَيْعٍ فِي الْأَصَحِّ (وَيُسَمَّى صَاحِبُ الدَّرَاهِمِ رَبُّ السَّلَمِ وَالْمُسْلِمُ) بِكَسْرِ اللَّامِ (وَ) يُسَمَّى (الْآخَرُ الْمُسْلَمُ إلَيْهِ وَالْحِنْطَةُ مَثَلًا الْمُسْلَمُ فِيهِ) وَالثَّمَنُ رَأْسُ الْمَالِ (وَحُكْمُهُ ثُبُوتُ الْمِلْكِ لِلْمُسْلَمِ إلَيْهِ وَلِرَبِّ السَّلَمِ فِي الثَّمَنِ وَالْمُسْلَمِ فِيهِ) فِيهِ لَفٌّ وَنَشْرٌ مُرَتَّبٌ (وَيَصِحُّ فِيمَا أَمْكَنَ ضَبْطُ صِفَتِهِ) كَجَوْدَتِهِ وَرَدَاءَتِهِ (وَمَعْرِفَةُ قَدْرِهِ كَمَكِيلٍ وَمَوْزُونٍ وَ) خَرَجَ بِقَوْلِهِ (مُثَمَّنٍ) الدَّرَاهِمُ وَالدَّنَانِيرُ لِأَنَّهَا أَثْمَانٌ فَلَمْ يَجُزْ فِيهَا السَّلَمُ خِلَافًا لِمَالِكٍ وَعَدَدِيٍّ مُتَقَارِبٍ كَجَوْزٍ وَبَيْضٍ وَفَلْسٍ) وَكُمَّثْرَى وَمِشْمِشٍ وَتِينٍ (وَلَبِنٍ) بِكَسْرِ الْبَاءِ (وَآجُرٍّ بِمِلْبَنٍ مُعَيَّنٍ) بُيِّنَ صِفَتُهُ وَمَكَانُ ضَرْبِهِ خُلَاصَةٌ وَذَرْعِيٍّ كَثَوْبٍ بُيِّنَ قَدْرُهُ طُولًا وَعَرْضًا (وَصَنْعَتُهُ) كَقُطْنٍ وَكَتَّانٍ وَمُرَكَّبٍ مِنْهُمَا (وَصِفَتُهُ) كَعَمَلِ الشَّامِ أَوْ مِصْرَ أَوْ زَيْدٍ أَوْ عَمْرٍو (وَرِقَّتُهُ) أَوْ غِلَظُهُ (وَوَزْنُهُ إنْ بِيعَ بِهِ) فَإِنَّ الدِّيبَاجَ كُلَّمَا ثَقُلَ وَزْنُهُ زَادَتْ قِيمَتُهُ وَالْحَرِيرَ كُلَّمَا خَفَّ وَزْنُهُ زَادَتْ قِيمَتُهُ فَلَا بُدَّ مِنْ بَيَانِهِ مَعَ الذَّرْعِ (لَا) يَصِحُّ (فِي) عَدَدِيٍّ (مُتَفَاوِتٍ) هُوَ مَا تَتَفَاوَتُ مَالِيَّتُهُ (كَبِطِّيخٍ وَقَرْعٍ) وَدُرٍّ وَرُمَّانٍ فَلَمْ يَجُزْ عَدَدًا بِلَا مُمَيِّزٍ وَمَا جَازَ عَدًّا جَازَ كَيْلًا وَوَزْنًا، نَهْرٌ". ( شامی، باب السلم، ٥ / ٢٠٩ - ٢١١، ط: دار الفكر) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144106201350

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں