بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کٹ پیس کپڑے کو فریش کپڑے کے تھان میں لپیٹ کر فریش کپڑے کی قیمت میں بیچنے کا حکم


سوال

میں کچے مردانہ کپڑے کا کام کرتا ہوں، ہمارے پاس کٹ پیس میں سوٹ آتے ہیں، اب ان میں اکثر  کپڑے دو ٹکڑوں میں ہوتے ہیں، مثلاً ایک ٹکڑا دو میٹر اور دوسرا ٹکڑا سوا دو میٹر کا، یہ کٹ پیس والا سوٹ فریش کپڑے( جو کہ تھان کی صورت میں ہوتے ہیں) کے مقابلہ میں سستے ہوتے ہیں، اور ہم بھی اسے سستے دام میں ہی بیچتے ہیں، اب ان کٹ پیس کپڑوں میں کچھ کپڑے ایک ہی ٹکڑے والے بھی نکل آتے ہیں یعنی پورے سوٹ کا کپڑا ایک ہی ٹکڑے کی صورت میں ہوتا ہے، تو ہم ان (ایک ٹکڑے والے کٹ پیس) کپڑوں کو تھان میں لپیٹ کر فریش کپڑے کے ریٹ میں ہی بیچ دیتے ہیں، یعنی عام طور سے کٹ پیس ایک ہزار (۱۰۰۰) روپے کا بیچتے ہیں، لیکن اگر اس ایک پیس والے کٹ پیس کو تھان میں لپیٹ کر فریش کہہ کر بیچیں تو چودہ سو (۱۴۰۰) روپے کا فروخت ہوگا، تھان میں لگانے کا مطلب یہ ہے کہ کٹ پیس تو تھیلی میں آتا ہے، تھان میں نہیں آتا ہے، اب ہم چیک کرتے ہیں کہ ایک ٹکڑا اگر پورے فریش سوٹ کی طرح نکل آئے تو ہم اسے تھان میں لپیٹ کر لگا دیتے ہیں۔پھر کسٹمر کو وہ کپڑا فریش کپڑے کے ریٹ میں بیچتے ہیں، اس میں کسٹمر کو بھی کوئی نقصان نہیں ہوتا ہے ؛ کیوں کہ جس طرح فریش پیس پورے ایک سوٹ کا کپڑا ہوتا ہے، اسی طرح یہ کپڑا  بھی ایک ہی پیس میں پورے سوٹ کے لیے کافی ہوجاتا ہے، اب پوچھنا یہ ہے کہ ایسا کرنا دھوکے یا جھوٹ کے زمرے میں تو نہیں آئے گا؟

جواب

ہماری معلومات کے مطابق کپڑا مارکیٹ کی اصطلاح میں فریش پیس اس کپڑے کو کہتے ہیں جو کپڑا ایک ہی پیس کی صورت میں مکمل سوٹ کے لیے کافی ہوجاتا ہو، اور کٹ پیس اس کپڑے کو کہتے ہیں جو ایک پیس کی صورت میں مکمل سوٹ بنانے کے لیے کافی نہ ہو، بلکہ مکمل سوٹ کا کپڑا دو پیس (ٹکڑوں) کی شکل میں ہو، اس اعتبار سے اگر آپ نے کوئی کپڑا کٹ پیس والے ریٹ میں خریدا ہو، لیکن وہ ایک ہی پیس میں مکمل سوٹ بنانے کے لیے کافی ہو تو اس کپڑے کو تھان کے ساتھ لپیٹ کر فریش پیس کی قیمت میں بیچنے میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن وہ کپڑا جس کوالٹی کا ہے اسے اسی کوالٹی کے تھان کے ساتھ ہی لپیٹ کر بیچنا چاہیے، ہلکی کوالٹی کے کپڑے کو کسی اعلیٰ کوالٹی والی کمپنی کے تھان میں لپیٹ کر بیچنا دھوکا دہی پر مبنی ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہوگا۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200213

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں