بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عارضی طور پر مانعِ حمل تدبیر اختیار کرنے کا حکم


سوال

کیا اسلام میں کونڈم کا استعمال کرنے کی اجازت ہے ؟ اور ہے تو کس حد تک ہے ?کیسے ہے ?تفصیل سے بتا دیں۔

جواب

موجودہ زمانے میں استقرارِ حمل سے بچنے کے لیے کونڈم کا استعمال رائج ہے جب کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو صورت رائج تھی اسے فقہی اصطلاح میں ’’عزل‘‘  کہتے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق مختلف سوالات کے جوابات میں جو باتیں ارشاد فرمائی ہیں وہ ایسی ہیں کہ ان سے نہ صراحتاً اجازت معلوم ہوتی ہے اور نہ ہی صراحتاً ممانعت مفہوم ہوتی ہے، البتہ اتنا ضرور واضح ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےاس عمل کو  پسند نہیں فرمایا۔

یہی وجہ ہے کہ فقہاء کرام کی اس مسئلہ کے متعلق آراءمختلف ہیں،بعض نے مطلقاً ناجائز قرار دیا ہے اور بعض مشروط طور پر اس کی اجازت دیتے ہیں، اور اگر کسی فاسد غرض سے ایسا کیا جائے تو ناجائز ہے،مثلاً یہ سوچ ہو کہ لڑکی پیدا ہوگئی تو بدنامی ہوگی یا فقر و افلاس کے خوف سے ایسا کیا جائے۔

البتہ اگر کوئی واقعی عذر ہو اور شرعاً وہ عذر معتبر بھی ہو تو عارضی طور پر کونڈم استعمال کرنے کی گنجائش ہوگی،مثلاً عورت کم زوری کی وجہ سے حمل برداشت نہیں کرسکتی،یا گھر سے دور کہیں سفر میں ہے جہاں مستقل قیام کا امکان نہیں،خطرات لاحق ہیں، یا دار الحرب میں ہیں، یا میاں بیوی کے آپس کے تعلقات کشیدہ ہیں اور شوہر جدائی کا قصد رکھتا ہے، اسی طرح ماحول کے بگاڑ اور زمانہ کے فساد کی وجہ سے اولاد کی صحیح تربیت نہ ہوسکنے کا قوی امکان ہو ۔

خلاصہ یہ ہے کہ کسی شخص کو عذر پیش آجائے تو عذر کی حد تک اس عمل کی گنجائش ہوگی۔ تاہم اس عمل کی ترغیب و ترویج بہرحال ناپسندیدہ اور مکروہ ہے۔

حاشية رد المحتار على الدر المختار - (3 / 175):
"(قوله: لكن في الخانية) عبارتهاعلى ما في البحر ذكر في الكتاب: أنه لايباح بغير إذنها. وقالوا: في زماننا يباح بغير إذنها. وقالوا: في زماننا يباح لسوء الزمان اهـ".

(قوله: قال الكمال ) عبارته: وفي الفتاوى: إن خاف من الولد السوء في الحرة يسعه العزل بغير رضاها؛ لفساد الزمان، فليعتبر مثله من الأعذار مسقطًا لإذنها اهـ  فقد علم مما في الخانية: أن منقول المذهب عدم الإباحة، وأن هذا تقييد من مشايخ المذهب لتغيربعض الأحكام بتغير الزمان، وأقره في الفتح، وبه جزم القهستاني أيضًا حيث قال: وهذا إذا لم يخف على الولد السوء لفساد الزمان، وإلا فيجوز بلا إذنها اهـ  لكن قول الفتح: "فليعتبر مثله" يحتمل أن يرد بالمثل ذلك العذر، كقولهم: "مثلك لايبخل"،  ويحتمل أنه أراد إلحاق مثل هذا العذر به  كأن يكون في سفر بعيد أو في دار الحرب فخاف على الولد أو كانت الزوجة سيئة الخلق ويريد فراقها فخاف أن تحبل، وكذا ما يأتي في إسقاط الحمل عن ابن وهبان، فافهم". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200508

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں