بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کوزی واٹر پارک، فیسٹا اور سنوے پارک میں سفری(قصر) نماز پڑھی جائے گی یا مکمل نماز؟ مذکورہ مقامات میں جمعہ کی نماز کا حکم


سوال

 کوزی  واٹر پارک،  فیسٹا اور سنوے  پارک  میں،  ہم ہر سال سیر وتفریح کے لیے جاتے ہیں، ان مقامات پر سفری نماز ہوگی یا نہیں اور جمعہ کی نماز کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ سفر شرعی  کی مقدار کم سے کم کلو میٹر کے اعتبار سے سوا ستتر ( 77.24 )کلو میٹر ہے، یعنی اگر کسی شخص کا اپنے شہر یا قصبے کے باہرسے سوا ستتر کلو میٹر یا ا س سے زیادہ سفر کا اراد ہ ہو،تو اس صورت میں وہ مسافر شمار ہوگا، اس سے کم مقدار میں سفر کرنے والا شرعاً مسافر شمار نہیں ہوتا۔

صورت مسئولہ میں کراچی شہر کے قریب کوزی واٹر پارک، فیسٹا اور سنوے  پارک  کی  مسافت کراچی شہر سےشرعی  مسافت کے برابر نہیں ہے؛ اس لیے ان مقامات پر سفری نماز (قصر) نہیں پڑھی جائے گی، بلکہ پوری نماز ہی پڑھی جائے گی۔

باقی  ان مقامات میں جمعہ کی نماز کے بارے میں تفصیل  یہ ہے کہ جمعہ کے صحیح ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط شہر یا اس کے مضافات کا ہونا ہے،مضافات سے مراد شہر سے باہر کچی آبادی کے جو علاقےشہر کے ساتھ ہیں اور شہر ہی کا حصہ شمار ہوتے ہیں ان مضافات میں جمعہ قائم کیا جاسکتا ہے، چاہے وہ جس قدر وسیع ہوں اور وہ محلے کتنی ہی دور ہوں،   ان علاقوں کے مضافات ہونے کے لیے ان کا شہر سے اتصال یا شہر کے بالکل قریب ہونا ضروری نہیں ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ علاقہ عرف میں  مضافات شہر کہلا کر شہر ہی کا حصہ شمار ہوتا ہو۔

لہذا صورت مسؤلہ میں کوزی واٹر پارک اور فیسٹا تو کراچی شہر  کی حدود   یا مضافات میں داخل ہیں ، اس لیے ان مقامات میں جمعہ کی نماز ادا کرنا لازم بھی ہےاور صحیح بھی ہے،جبکہ سنوے لگوں  گھارو شہر سے تقریبا ساڑھے چھ کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے ،اب اگر یہ علاقہ  گھارو یا کسی اور شہر  کے مضافات میں شمار ہوتا ہو تو یہاں  جمعہ ادا کرنا لازم بھی ہے اور صحیح بھی ہے ،لیکن اگر یہ گھارو یا کسی اور شہر  کے مضافات میں شمار نہیں ہوتا تو یہاں جمعہ ادا کرنا درست نہیں ہوگا ،ظہر کی نماز ادا کی جائے گی ۔

وفي الدر المختار وحاشية ابن عابدين :

"(أو فناؤه) بكسر الفاء (وهو ما) حوله (اتصل به) أو لا كما حرره ابن الكمال وغيره (لأجل مصالحه) كدفن الموتى وركض الخيل والمختار للفتوى تقديره بفرسخ ذكره الولوالجي.

والتعريف أحسن من التحديد لأنه لا يوجد ذلك في كل مصر وإنما هو بحسب كبر المصر وصغره. بيانه أن التقدير بغلوة أو ميل لا يصح في مثل مصر لأن القرافة والترب التي تلي باب النصر يزيد كل منهما على فرسخ من كل جانب، نعم هو ممكن لمثل بولاق فالقول بالتحديد بمسافة يخالف التعريف المتفق على ما صدق عليه بأنه المعد لمصالح المصر فقد نص الأئمة على أن الفناء ما أعد لدفن الموتى وحوائج المصر كركض الخيل والدواب وجمع العساكر والخروج للرمي وغير ذلك وأي موضع يحد بمسافة يسع عساكر مصر ويصلح ميدانا للخيل والفرسان ورمي النبل والبندق البارود واختبار المدافع وهذا يزيد على فراسخ فظهر أن التحديد بحسب الأمصار اهـ ملخصا من [تحفة أعيان الغني بصحة الجمعة والعيدين في الفنا] للعلامة الشرنبلالي وقد جزم فيها بصحة الجمعة في مسجد سبيل على أن الذي بناه بعض أمراء زمانه وهو في فناء مصر بينه وبينها نحو ثلاثة أرباع فرسخ وشيء.

مطلب في صحة الجمعة بمسجد المرجة والصالحية في دمشق

أقول: وبه ظهر صحتها في تكية السلطان سليم بمرجة دمشق، وكذا في مسجده بصالحية دمشق فإنها من فناء دمشق بما فيها من التربة بسفح الجبل وإن انفصلت عن دمشق بمزارع لكنها قريبة لأنها على ثلث فرسخ من البلدة، وإن اعتبرت قرية مستقلة فهي مصر على تعريف المصنف على أن مسجدها مبني بأمر السلطان، وكذا مسجدها القديم المشهور بمسجد الحنابلة الذي بناه الملك الأشرف وأمره كاف في صحتها على ما مر تأمل."

(رد المحتار2/ 138ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144008200212

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں