کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے کے بارے میں کہ:
زید کا اپنے بھائی کے ساتھ جھگڑا ہواتھا، زید نے بھائی سے معافی بھی مانگی اور روز سلام بھی کرتا تھا، مگر وہ سلام و کلام کا جواب نہیں دیتا، ایک دن زید کو بیوی نے بتایا کہ آپ کا بھائی والدین کو آپ کے خلاف اکسا رہا ہے اور آپ کو معاف بھی نہیں کررہا ۔زید کے دل میں خیال آیا کہ بندہ جتنے بھی گناہ کرے تو اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتاہے، مگر یہ ہے کہ معاف نہیں کرتا۔ یہ خیال آنے کے بعد طنزاً یہ الفاظ استعمال کیے کہ (کوئی بات نہیں وہ خدا سے بڑا ہے؛ اس لیے معاف نہیں کر رہا ) نعوذ باللہ۔ یہ الفاظ زید نے ان کے معاف نہ کرنے کی وجہ سے طنزاً ادا کیے۔الفاظ کے ادائیگی پر فوراً زید کو احساس ہواکہ شاید میں نے شرکیہ الفاظ استعمال کیے۔
اب علمائے کرام راہ نمائی فرمائیں کہ کیا زید شرک کا مرتکب ہواہے؟ کیا ان کے تمام اعمال تباہ ہوئے؟ کیا ان کا نکاح ٹوٹ چکا؟ اور اگر زید کے پاس طلاق کا ایک اختیار باقی تھا تو کیا اس جملے سے وہ بھی ختم ہوا؟
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ الفاظ زید کی زبان سے اگر واقعۃً طنز کے طور پر نکلے تھے، ارادۂ کفر نہ تھا تو اس صورت میں زید کو فوری طور پر توبہ و استغفار کرنا ضروری ہوگا اور آئندہ ہر حالت میں الفاظ سوچ سمجھ کر زبان سے نکالنے کی عادت بنائی جائے، تجدیدِ ایمان و تجدیدِ نکاح کی ضرورت نہیں۔ نیز اگر اس سے پہلے دو طلاق کا حق استعمال کرچکا ہے، تو آئندہ کے لیے ایک ہی طلاق کا حق باقی ہوگا۔
فتاوی تتارخانیہ میں ہے:
"وما كان خطأ من الألفاظ، لاتوجب الكفر، فقائله مؤمن علی حاله، و لايؤمر بتجديد النكاح، و لكن يؤمر بالإستغفار و الرجوع عن ذلك". ( كتاب أحكام المرتدين، الفصل الأول، ٧/ ٢٨٤، ط: زكريا) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144003200394
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن