بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹیڑھی مانگ / کنارے سے مانگ نکالنا


سوال

 کیا بالوں میں ایک طرف مانگ نکالنا گناہ ہے یا نہیں؟ مسنون طریقہ کون سا ہے؟

جواب

نبی کریم ﷺ کی عادتِ مبارکہ درمیان سے مانگ نکالنے کی تھی؛ لہذا درمیان سے مانگ نکالنا سنت ہے۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ مانگ نکالے بغیر پورے سر کے بال پیچھے کی طرف سیدھے کردیے جائیں۔

باقی ٹیڑھی مانگ نکالنا عام حالت میں گناہ  نہیں ہوگا، کیوں کہ سننِ عادیہ کو اختیار نہ کرنا اس وقت تک گناہ کا سبب نہیں ہوتا جب تک اس عمل کی ممانعت نہ وارد ہوئی ہو، یا اس کے نتیجے میں کفار یا فساق کی مشابہت لازم نہ آتی ہو؛  لہذا ایک طرف سے  مانگ نکالنے کو عام حالات میں گناہ نہیں کہا جاسکتا، البتہ اگر اس میں فساق یا کفار کی مشابہت کی نیت ہو تو یہ ناجائز ہے؛ کیوں کہ ان کی مشابہت ممنوع ہے۔

فتاوی محمودیہ میں ہے :

’’سر کے بیچ میں مانگ نکالنا اچھا ہے‘‘۔ (۲۴ / ۳۹۲، دار الافتاء فاروقیہ)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 477):
"هي السنن الغير المؤكدة؛ كسيره عليه الصلاة والسلام في لباسه وقيامه وقعوده وترجله".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 477):
"تركه لايوجب إساءةً ولا عتاباً كترك سنة الزوائد، لكن فعله أفضل".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 624):
"فإن التشبه بهم لايكره في كل شيء، بل في المذموم وفيما يقصد به التشبه".

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (7 / 2817):
"قالوا: والفرق سنة؛ لأنه الذي رجع إليه صلى الله عليه وسلم، والظاهر أنه إنما رجع إليه بوحي؛ لقوله: إنما كان يحب موافقة أهل الكتاب فيما لم يؤمر فيه. قال القاضي عياض: نسخ السدل فلايجوز فعله، ولا اتخاذ الناصية والجمة. قال: ويحتمل جواز الفرق ولا وجوبه، ويحتمل أن الفرق كان اجتهادًا في مخالفة أهل الكتاب لا بوحي، فيكون الفرق مستحبًا. وقد جاء في الحديث أنه «كان للنبي صلى الله عليه وسلم لمة، فإن افترقت فرقها وإلا تركها». والحاصل أن الصحيح المختار جواز السدل، والفرق أفضل اهـ".

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (22 / 56):
"(ثم فرق) الأشهر فيه التخفيف والحكمة في محبة موافقتهم أنهم يتمسكون بالشريعة في الجملة، فكان يحب موافقتهم ليتألفهم، ثم لما أمر بالفرق استمر عليه الحال وادعى بعضهم النسخ وليس بصحيح لأنه لو كان السدل منسوخا لصار إليه الصحابة أو أكثرهم، والمنقول عنهم أن منهم من كان يفرق ومنهم من كان يسدل ولم يعب بعضهم على بعض، والصحيح أنه كانت له لمة فإن انفرقت فرقها وإلا تركها، والصحيح أن الفرق مستحب لا واجب وهو قول الجمهور، وبه قال مالك، وقال النووي: الصحيح جواز السدل والفرق".
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106201334

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں