بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کمیشن کا حکم


سوال

 میں ایک کمپنی میں sale representative  کا کام کرتا ہوں ،کمپنی مجھے ایک آئٹم دیتی ہے 10 روپے میں بیچنے کا کہتی ہے۔ اور میں وہ 12 یا 14 روپے میں بیچتا ہوں، اور 10 روپے کمپنی کو دیتا ہوں باقی خود رکھ لیتا ہوں ۔ کیا یہ صحیح ہے؟

جواب

آپ کی کمپنی آپ کو اس کے علاوہ کوئی اجرت نہیں دیتی، بلکہ دس سے زائد جتنی قیمت میں آپ بیچ دیں وہ اضافی رقم ہی آپ کی اجرت ہے،یا آپ 12روپے کا بیچ کر کمپنی کو دس کا ہی ظاہر کرتے ہیں یہ دونوں صورت جائز نہیں۔ اس لیے کہ پہلی صورت میں اجرت متعین نہیں، اور دوسری صورت میں دھوکاہے۔

البتہ اگر کمپنی اجرت متعین کردے، اور کمپنی کے ذمہ داران کی طرف سے اس بات کی اجازت ہوکہ اگر مذکورہ چیز دس سے زیادہ کی بیچ دی تو باقی آپ کا بونس ہوگا، تو  اس کی اجازت ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

’’قَالَ فِي التتارخانية: وَفِي الدَّلَّالِ وَالسِّمْسَارِ يَجِبُ أَجْرُ الْمِثْلِ، وَمَا تَوَاضَعُوا عَلَيْهِ ... وَفِي الْحَاوِي: سُئِلَ مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ أُجْرَةِالسِّمْسَارِ؟ فَقَالَ: أَرْجُو أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِهِ وَإِنْ كَانَ فِي الْأَصْلِ فَاسِدًا؛ لِكَثْرَةِ التَّعَامُلِ، وَكَثِيرٌ مِنْ هَذَا غَيْرُ جَائِزٍ، فَجَوَّزُوهُ لِحَاجَةِ النَّاسِ إلَيْهِ...‘‘ الخ ( مَطْلَبٌ فِي أُجْرَةِ الدَّلَّالِ ، ٦/ ٦٣، ط: سعيد)

وفیه أیضاً: ’’وَأَمَّا أُجْرَةُ السِّمْسَارِ وَالدَّلَّالِ فَقَالَ الشَّارِحُ الزَّيْلَعِيُّ: إنْ كَانَتْ مَشْرُوطَةً فِي الْعَقْدِ تُضَمُّ‘‘. (ه/ ١٣٦) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106201330

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں