بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کمپنی میں تین دن تاخیر سے آنے پر ایک دن کی تنخواہ کی کٹوتی ہونا / کمپنی کے ملازمین کی شرعی حیثیت


سوال

ہماری کمپنی میں ایک ضابطہ یہ ہے کہ تین لیٹ پر ایک چھٹی کی کٹوتی ہوجاتی ہے (یعنی تین دن تاخیر سے آنے پر ایک دن کی  تنخواہ کٹ جاتی ہے) ، اب ہماری کمپنی میں دور دور سے بھی لوگ آتے ہیں جو کبھی ٹریفک  کی وجہ سے ایک، دو منٹ یا پانچ ، دس منٹ لیٹ ہوجاتے ہیں، جس پر ان کی تںخواہ کی ایک بڑی رقم کی کٹوتی ہوجاتی ہے، میرا سوال یہ ہے کہ کمپنی کا بالکل ضابطہ رکھنا چاہیے کہ تاخیر سے آنے پر کٹوتی کرے ؛ تاکہ لوگ وقت پر آئیں،  لیکن پانچ سے دس منٹ تاخیر ہوجائے تو وہ سمجھ آتا ہے  کہ ٹریفک میں پھنسا ہوا ہوگا، جان بوجھ کر لیٹ نہیں نکلا ہوگا تو ان کی لیٹ ختم کردینی چاہیے یا پیسے نہیں کاٹنے چاہییں، اس معاملہ میں  شریعت کی راہ نمائی فرمائیں!

جواب

واضح رہے کہ کسی بھی ادارے کے ملازمین کی حیثیت شرعی طور پر اجیر خاص کی ہوتی ہے؛  کیوں کہ وہ وقت کے پابند ہوتے ہیں، اور  اجیر خاص  ملازمت کے مقررہ وقت پر حاضر رہنے سے اجرت (تنخواہ)  کا مستحق ہوتا ہے، اگر وہ  ملازمت کے اوقات میں  حاضر نہیں  رہا یا تاخیر سے آیا  تو اس   غیر حاضری اور تاخیر کے بقدر تنخواہ  کا وہ مستحق نہیں ہوتا،   اس معاملہ کا  اصل تقاضا تو یہ ہے کہ جب ملازم  کام نہ کرے تو اس کا معاوضہ بھی نہ لے، یا جتنی تاخیر سے آئے اس تاخیر کے بقدر تنخواہ وصول نہ کرے ، لیکن  شریعت نے طرفین کو اختیار دیا ہے کہ  تنخواہ کے بارے میں باہمی رضامندی سے چھٹی یا تاخیر  کی صورت میں جو جائز ضابطہ بناکر آپس میں طے کرلیں اس کی شرعاً بھی اجازت ہوگی۔

مذکورہ تمہید کے بعد آپ کے سوال کا جواب عرض ہے! آپ کے سوال میں بنیادی طور پر دو باتیں ہیں، دونوں کا جواب الگ الگ درج ذیل ہے:

(1) کمپنی کا کسی ملازم کی تین دن تاخیر کرنے پر ایک دن کی تنخواہ کی کٹوتی کرنا:

اس کا  حکم یہ ہے کہ یہ ضابطہ شرعاً درست نہیں ہے، تین دن تاخیر سے آنے پر ایک پورے دن کی تنخواہ کاٹنا جائز نہیں ہے؛ اس لیے ملازم نے جتنا وقت دیا ہے اتنے وقت کی تو وہ تنخواہ کا مستحق ہے ،البتہ تنخواہ میں کٹوتی کے جواز کی صورت یہ ہے کہ  ملازم کی ماہانہ تنخواہ کو  اس کی ملازمت کے مکمل وقت (مثلا صبح 8 سےشام 5 بجے تک وغیرہ)میں تقسیم کردیا جائے پھر جس دن کوئی ملازم ملازمت کے وقت تاخیر سے آئے تو  اس کی تنخواہ  میں سے صرف اس تاخیر کے بقدر کٹوتی کی جاسکتی ہے۔

(2) کمپنی کو کچھ وقت تاخیر سے آنے والے ملازم کی تنخواہ سے کٹوتی نہیں کرنی چاہیے:

اس کا جواب یہ ہے کہ یہ معاملہ انتظامی نوعیت کا ہے، جیسا کہ تمہید میں ذکر ہوا کہ اجیر خاص ملازمت کے وقت میں حاضر ہونے سے تنخواہ کا مستحق ہوتا ہے، اگر تاخیر سے آئے  تو جس قدر تاخیر سے آئے اس قدر وہ تنخواہ کا حق دار نہیں ہوتا، البتہ اگر فریقین باہمی رضامندی سے کوئی جائز ضابطہ بنالیں تو اس کی اجازت ہے، لہذا اگر کمپنی ملازمین کے لیے ایسا کوئی ضابطہ بنالیتی ہے کہ ملازمت کے وقت شروع ہونے کے مثلاً دس یا پندرہ  تک تاخیر سے آنے کی گنجائش ہے اور اس کے بعد آنے والوں کی  کل تاخیر کے بقدر تنخواہ سے کٹوتی ہوگی تو یہ ضابطہ شرعاً جائز ہے، اور یہ کمپنی کی طرف سے تبرع اور احسان ہوگا، شرعاً ان کے ذمہ یہ لازم نہیں ہے۔

مشکاۃ المصابیح  میں ہے:

"وعن عمرو بن عوف المزني عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «الصلح جائز بين المسلمين إلا صلحاً حرم حلالاً أو أحل حراماً، والمسلمون على شروطهم إلا شرطاً حرم حلالاً أو أحل حراماً» . رواه الترمذي وابن ماجه وأبو داود وانتهت روايته عند قوله: «شروطهم»".(1/253، باب الافلاس والانظار، الفصل الثانی، ط؛ قدیمی)

     فتاوی شامی میں ہے:

"وليس للخاص أن يعمل لغيره، ولو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل، فتاوى النوازل.

(قوله: وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلاً يوماً يعمل كذا، فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة، وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا: له أن يؤدي السنة أيضاً. واتفقوا أنه لا يؤدي نفلاً، وعليه الفتوى ... (قوله: ولو عمل نقص من أجرته إلخ) قال في التتارخانية: نجار استؤجر إلى الليل فعمل لآخر دواة بدرهم وهو يعلم فهو آثم، وإن لم يعلم فلا شيء عليه، وينقص من أجر النجار بقدر ما عمل في الدواة".(6/70،  کتاب الاجارۃ، ط؛ سعید)

شرح المجلۃ میں ہے:

 "لایجوز لأحد  أن یاخذ  مال أحد  بلا سبب شرعي".(1/264،  مادۃ: 97، ط؛ رشیدیہ)

      البحر الرائق میں ہے:

"وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال".(5/41، فصل فی التعزیر،  ط:  سعید) فقط واللہ اعلم

 


فتوی نمبر : 144001200530

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں