بندہ نے غصہ کی حالت میں ’’کلما‘‘ طلاق کے الفاظ کچھ اس طرح استعمال کیے ہیں: ’’كلما تزوجت امرأةً فهي طالق‘‘ ، اب بندہ اگر نکاح کرنا چاہے تو اس کی کیا صورت ہوگی؟
اگر کسی شخص نے غصے میں یہ کہہ دیا کہ :’’كلما تزوجت امرأةً فهي طالق‘‘ (جب بھی میں کسی عورت سے نکاح کروں اسے طلاق ہو) اور وہ نکاح کرنا چاہے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ کوئی شخص اس کی اجازت کے بغیر اس کی غیر موجودگی میں ا س کا نکاح کردے، پھر وہ زبانی طور پر اس نکاح کی اجازت نہ دے اور نہ (زبانی طورپر) اس پر رضامندی کا اظہار کرے، بلکہ فعلی طور پر مثلاً مہر وغیرہ دے کر اجازت کا اظہار کرے، تو یہ نکاح درست ہوگا اور اس کے بعد طلاق بھی واقع نہیں ہوگی۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (3 / 348):
"(قوله: إلا المضافة إلى الملك) أي في نحو: كلما تزوجت امرأةً فهي طالق ثلاثاً، فطلق امرأته ثلاثاً، ثم تزوجها، فإنها تطلق؛ لأن ما نجزه غير ما علقه، فإن المعلق طلاق ملك حادث فلايبطله تنجيز طلاق ملك قبله".
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (3 / 345):
"(قوله: وكذا كل امرأة) أي إذا قال: كل امرأة أتزوجها طالق، والحيلة فيه ما في البحر من أنه يزوجه فضولي، ويجيز بالفعل كسوق الواجب إليها، أو يتزوجها بعد ما وقع الطلاق عليها؛ لأن كلمة كل لاتقتضي التكرار. اهـ. وقدمنا قبل فصل المشيئة ما يتعلق بهذا البحث". فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144102200361
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن