بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کفار کا مال استعمال کرنا


سوال

کفار کا مال استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟ خواہ وہ ہبۃً ہو یا غصباً؟ اور این جی اوز کے مال پر نفع حاصل کرنا کیا یہ جائز ہے یا نہیں ؟

جواب

کفار یا ان کی  این جی اوز  اگر مال (یعنی جو دینِ اسلام کے اَحکام کے اعتبار سے ہمارے لیے مال ہے) ہبہ کریں اور اس مال کے استعمال سے ان کے ایسے مقاصد نہ ہوں جو اسلام یا اہلِ اسلام کو نقصان پہنچارہے ہوں تو اس مال کا استعمال جائز ہے۔

اگر کسی جگہ تمام شرعی شرائط کے ساتھ جہاد  کیا جائے اور وہاں سے مال غنیمت حاصل ہو تو اس کا استعمال بھی مالِ غنیمت کے اصولوں کے مطابق جائز ہے۔

اس کے علاوہ عام حالت میں کسی بھی شخص کا مال اس کی رضامندی کے بغیر استعمال کرنا جائز نہیں ہے، خواہ وہ غیر مسلم ہو۔ غصب کرنا کبیرہ گناہ ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 138):
"وهو لكافة المسلمين (إذا فتح الإمام بلدةً صلحًا جرى على موجبه وكذا من بعده) من الأمراء (وأرضها تبقى مملوكة لهم ولو فتحها عنوةً) بالفتح أي قهرًا (قسمها بين الجيش) إن شاء (أو أقر أهلها عليها بجزية) على رءوسهم (وخراج) على أراضيهم والأول أولى عند حاجة الغانمين (أو أخرجهم منها وأنزل بها قوما غيرهم ووضع عليهم الخراج) والجزية (لو) كانوا (كفارًا) فلو مسلمين وضع العشر لا غير".
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200981

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں