بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی کو سونے کا لاکٹ مل جائے اور مالک معلوم نہ ہو تو کیا کرے؟


سوال

اگر کسی شخص کو سونے کا لاکٹ مل جائے تو کیا کرے، جب کہ مالک بالکل نہیں معلوم؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سونے کے مذکورہ لاکٹ کو بطورِ امانت مذکورہ شخص اپنے پاس رکھ سکتا ہے اور اس دوران اس پر شرعاً لازم ہوگا کہ وہ لاکٹ ملنے کی علامات بتلائے بغیر خوب  تشہیر کرے، پس اگر مالک آجاتا ہے تو اچھی طرح اطمینان کرنے کے بعد وہ لاکٹ اس کے حوالہ کردے، اور اگر حتی الامکان تشہیر کے باوجود بھی کوئی مالک نہ آئے اور مالک ملنے کی امید نہ رہے اور وہ مایوس ہوجائے تو اس صورت میں اگر وہ مستحق ہو تو اسے اپنے استعمال میں لا سکتا ہے اور اگر وہ مستحق نہ ہو تو اصل مالک کی طرف سے صدقہ کی نیت سے کسی مستحق کو دے سکتا ہے۔ تاہم اگر بعد میں مالک آجاتا ہے اور وہ اس اقدام کو تسلیم نہیں کرتا اور مذکورہ شخص سے مطالبہ کرتا ہے تو وہ لاکٹ یا اس کی قیمت ادا کرنے کا پابند ہوگا، اور اگر مالک صدقہ منظور کر لیتا ہے تو اسے ثواب ملے گا۔

"كِتَابُ اللُّقَطَةِ (هِيَ) بِالْفَتْحِ وَتُسَكَّنُ: اسْمٌ وُضِعَ لِلْمَالِ الْمُلْتَقَطِ عَيْنِيٌّ. وَشَرْعًا: مَالٌ يُوجَدُ ضَائِعًا، ابْنُ كَمَالٍ. وَفِي التَّتَارْخَانِيَّة عَنْ الْمُضْمَرَاتِ: مَالٌ يُوجَدُ وَلَا يُعْرَفُ مَالِكُهُ، وَلَيْسَ بِمُبَاحٍ كَمَالِ الْحَرْبِيِّ. وَفِي الْمُحِيطِ: (رَفْعُ شَيْءٍ ضَائِعٍ لِلْحِفْظِ عَلَى غَيْرٍ لَا لِلتَّمْلِيكِ) وَهَذَا يَعُمُّ مَا عُلِمَ مَالِكُهُ كَالْوَاقِعِ مِنْ السَّكْرَانِ، وَفِيهِ أَنَّهُ أَمَانَةٌ لَا لُقَطَةٌ لِأَنَّهُ لَا يُعْرَفُ بَلْ يُدْفَعُ لِمَالِكِهِ (نَدْبُ رَفْعِهَا لِصَاحِبِهَا) إنْ أَمِنَ عَلَى نَفْسِهِ تَعْرِيفَهَا وَإِلَّا فَالتَّرْكُ أَوْلَى. وَفِي الْبَدَائِعِ وَإِنْ أَخَذَهَا لِنَفْسِهِ حَرُمَ لِأَنَّهَا كَالْغَصْبِ (وَوَجَبَ) أَيْ فَرْضٌ فَتْحٌ وَغَيْرُهُ (عِنْدَ خَوْفِ ضَيَاعِهَا) كَمَا مَرَّ لِأَنَّ لِمَالِ الْمُسْلِمِ حُرْمَةً كَمَا لِنَفْسِهِ، فَلَوْ تَرَكَهَا حَتَّى ضَاعَتْ أَثِمَ...(فَيَنْتَفِعُ) الرَّافِعُ (بِهَا لَوْ فَقِيرًا وَإِلَّا تَصَدَّقَ بِهَا عَلَى فَقِيرٍ وَلَوْ عَلَى أَصْلِهِ وَفَرْعِهِ وَعُرْسِهِ،...(فَإِنْ جَاءَ مَالِكُهَا) بَعْدَ التَّصَدُّقِ (خُيِّرَ بَيْنَ إجَازَةِ فِعْلِهِ وَلَوْ بَعْدَ هَلَاكِهَا) وَلَهُ ثَوَابُهَا (أَوْ تَضْمِينُهُ)..."الخ (شامي، كتاب اللقطة، ٤/ ٢٧٥ - ٢٨٠)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قَوْلُهُ: وَهُوَ لُقَطَةٌ) فَلَهُ أَنْ يَصْرِفَهُ إلَى نَفْسِهِ إنْ كَانَ مُحْتَاجًا بَعْدَ التَّعْرِيفِ لَا إنْ كَانَ غَنِيًّا، مِنَحٌ، وَقَوْلُ الْأَشْبَاهِ: وَكَذَا إنْ كَانَ غَنِيًّا سَبْقُ قَلَمٍ كَمَا لَا يَخْفَى". (٦/ ٣٠٩)

بہشتی زیور میں ہے:

"بہت تلاش کرنے اور اعلان کرنے کے بعد جب بالکل مایوسی ہوجائے کہ اب اس کا کوئی مالک نہیں ملے گا تو اس چیز کو صدقہ کردے، اپنے پاس نہ رکھے، البتہ اگر وہ خود غریب، ضرورت مند ہو تو خود بھی اپنے استعمال میں لا سکتا ہے، لیکن صدقہ کرنے کے بعد اگر اس کا مالک آگیا تو وہ اس سے اس کی قیمت لے سکتا ہے اور اگر مالک نے صدقہ کرنا منظور کرلیا تو اس کو اس صدقہ کا ثواب مل جائے گا"۔ ( کتاب اللقطہ، ٢/ ١٣٠، ط: الحجاز کراچی)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200249

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں