بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی کو تبلیغ میں لگانے کی نذر ماننا


سوال

میری والدہ  نے منت مانی ’’اگر میری  بیٹی  نے ماسٹر  کرلیا تو  میں  اسے  اللہ  کی  راہ  میں  لگاؤں  گی  یہ  دین  کی  تبلیغ کرےگی‘‘،اس پر بیٹی نے بھی رضا مندی کا اظہار کیا، لیکن اب بیٹی تو نماز بھی نہیں پڑھتی اور دین کی تبلیغ کرے گی بھی تو بے عملی کی وجہ سے دین بدنام ہوگا، بیٹی خود کو اس کام کا اہل نہیں سمجھتی،کیا 3 روزے رکھنے سے منت کا کفارہ ہو سکتا ہے؟

جواب

شرعی طورپر نذر کے انعقاد کے لیے جو شرائط ہونی چاہییں مذکورہ صورت میں وہ شرائط نہیں پائی جارہیں،  اس لیے مذکورہ نذر منعقد نہیں ہوئی؛ لہٰذاکوئی کفارہ لازم نہیں ہوگا۔البتہ یہ یاد رہے کہ نمازہر عاقل، بالغ مردوعورت پر فرض ہے ، شرعی عذر کے بغیر نماز ترک کرنا گناہِ  کبیرہ ہے اور احادیثِ  مبارکہ میں اس پر سخت وعیدیں آئی ہیں ،مشکاۃ شریف کی روایت میں ہے :

’’ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز کا چھوڑنا بندہ مؤمن اور کفر کے درمیان (کی دیوار کو گرا دیتا ) ہے‘‘۔

اس حدیث کی شرح میں علامہ نواب قطب الدین خان دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

’’یہاں لفظِ ’’بین‘‘  کا متعلق محذوف ہے، یعنی اس حدیث میں یہ عبارت مقدر ہے کہ ’’تَرْکُ الصَّلاة وُصْلَةٌ بِیْنَ الْعَبْدِ الَمُسْلِمِ وَبَیْنَ الْکُفْرِ‘‘  جس کا مطلب یہ ہوا کہ بندہ مؤمن اور کفر کے درمیان نماز بمنزلہ دیوار کے ہے کہ بندہ اس کی وجہ سے کفر تک نہیں پہنچ سکتا، مگر جب نماز ترک کر دی گئی تو گویا درمیان کی دیوار اٹھ گئی، لہٰذا نماز چھوڑنا اس بات کا سبب ہوگا کہ نماز چھوڑنے والا مسلمان کفر تک پہنچ جائے گا۔ بہر حال! اس حدیث میں نماز چھوڑنے والوں کے لیے سخت تہدید ہے اور اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ نماز کا چھوڑنے والا ممکن ہے کہ کافر ہو جائے؛ کیوں کہ جب اس نے اسلام و کفر کے درمیان کی دیوار کو ختم کر دیا گویا وہ کفر کی حدتک پہنچ گیا ہے اور جب وہ کفر کی حد تک پہنچ گیا تو ہو سکتا ہے کہ یہی ترکِ نماز اس کو فسق و فجور اور اللہ سے بغاوت و سرکشی میں اس حد تک دلیر کر دے کہ وہ دائرہ کفر میں داخل ہوجائے‘‘۔

مشکاۃ شریف کی دوسری روایت میں ہے :

’’ حضرت عبداللہ ابن عمر و ابن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہما راوی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کا ذکر کیا ( یعنی نماز کی فضیلت و اہمیت کو بیان کرنے کا ارادہ فرمایا) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو آدمی نماز پر محافظت کرتا ہے (یعنی ہمیشہ پابندی سے پڑھتا ہے) تو اس کے لیے یہ نماز ایمان کے نور (کی زیادتی کا سبب) اور ایمان کے کمال کی واضح دلیل ہوگی، نیز قیامت کے روز مغفرت کا ذریعہ بنے گی اور جو آدمی نماز پر محافظت نہیں کرتا تو اس کے  لیے نماز نہ (ایمان کے) نور (کی زیادتی کا سبب بنے گی، نہ (کمال ایمان کی) دلیل اور نہ (قیامت کے روز) مغفرت کا ذریعہ بنے گی، بلکہ ایسا آدمی قیامت کے روز قارون، فرعون ، ہامان اور ابی ابن خلف کے ساتھ (عذاب میں مبتلا) ہوگا۔ (مسند احمد بن حنبل، دارمی، بیہقی)‘‘۔

البحرالرائق میں ہے :

"وصرح في النهاية بأن النذر لايصح إلا بشروط ثلاثة في الأصل إلا إذا قام الدليل على خلافه: إحداها أن يكون الواجب من جنسه شرعاً، والثاني أن يكون مقصوداً لا وسيلةً، والثالث أن لايكون واجباً عليه في الحال أو في ثاني الحال؛ فلذا لايصح النذر بصلاة الظهر وغيرها من المفروضات؛ لانعدام الشرط الثالث". (6/278)

فتاوی شامی میں ہے :

"( ومن نذر نذراً مطلقاً أو معلقاً بشرط وكان من جنسه واجب) أي فرض كما سيصرح به تبعاً لـ ( البحر ) و ( الدرر ) ( وهو عبادة مقصودة ) خرج الوضوء وتكفين الميت (ووجد الشرط ) المعلق به (لزم الناذر)؛ لحديث: من نذر وسمى فعليه الوفاء بما سمى، (كصوم وصلاة وصدقة) ووقف (واعتكاف) وإعتاق رقبة وحج ولو ماشياً؛ فإنها عبادات مقصودة ومن جنسها واجب لوجوب العتق في الكفارة والمشي للحج على القادر من أهل مكة والقعدة الأخيرة في الصلاة وهي لبث كالأعتكاف ووقف مسجد للمسلمين واجب على الإمام من بيت المال وإلا فعلى المسلمين (ولم يلزم) الناذر (ما ليس من جنسه فرض كعيادة مريض وتشييع جنازة ودخول مسجد) ولو مسجد الرسول صلى الله عليه وسلم أو الأقصى لأنه ليس من جنسها فرض مقصود وهذا هو الضابط كما في الدرر". (3/735) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200589

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں