بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی کو اس کے کردہ گناہ کا طعنہ دینا/ بدچلن لڑکی کے تائب ہونے کے بعد اس سے نکاح کرنا


سوال

یونیورسٹی میں میری ایک دوست تھی جو کافی غلط حرکتوں کی وجہ سے  بہت زیادہ بدنام تھی، گناہ میں مبتلا تھی،  وہ مجھے پسند کرتی تھی،  مگر میں نہیں کرتا تھا،  یونیورسٹی ختم ہونے کے بعد اب میری اس سے دوبارہ بات ہوئی ہے، میں نے اسے بدلنے کی کوشش کی، اللہ نے اسے ہدایت دی، اب وہ بدل گئی ہے، اس نے مجھے سب کچھ بتا دیا ہے، اب میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں، میں نے اس کے گھر رشتہ بھی بھیجا ہے،  میں اس کا ماضی بھی جانتا ہوں، جو مجھے بہت تکلیف دیتا ہے،  لیکن ساتھ ہی یہ خیال بھی آتا ہے کہ وہ بدل گئی ہے، میرے آنے سے اس نے سیدھا راستہ چن لیا ہے،  مجھے دین کی حیثیت سے بتائیں کہ کیا میں صحیح کر رہا ہوں؟  اس کو صحیح راستہ پر لانے کے لیے اس سے شادی کرنا صحیح ہے؟  لیکن اس کا ماضی شیطان مجھے یاد دلاتا رہتا ہے،  مجھے بتائیں کیا میں ٹھیک کر رہا ہوں، تاکہ میں اپنے نیک ارادے میں اور مضبوط ہو جاؤں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر  مذکورہ خاتون توبہ تائب ہوچکی ہیں اور سیدھے راستہ پر چلنا چاہتی ہیں تو  ایسی صورت میں سائل کے لیے ان سے نکاح کرنا باعث اجر ہوگا، تاہم سائل کے لیے مذکورہ خاتون کو ان کے ماضی کے حوالے سے طعنہ دینا جائز نہ ہوگا، سنن ترمذی کی روایت میں ہے کہ کسی کے گناہ / برائی کا افشا نہ کرو، ( کیوں  کہ) اللہ اسے معاف کر دے گا اور تمہیں مبتلا کردے گا،  لہذا اگر آپ ساری زندگی اس ذمہ داری کو خوش اسلوبی سے نباہ سکتے ہوں تو اس صورت میں آپ مذکورہ خاتون سے نکاح کرکے ان کے لیے پاکیزہ زندگی فراہم کرنے میں ان کے معین و مددگار  بن سکتے ہیں، اور اللہ کی ذات سے امیدِ  واثق ہے کہ وہ آپ کے اس عمل کو قبول فرما کر آپ کی نجات کا ذریعہ بنا دے گا۔

البتہ اگر آپ کو اپنے اوپر بھروسہ نہ ہو یا آپ شکی مزاج ہوں تو ایسی صورت میں آپ مذکورہ خاتون سے نکاح کرنے سے اجتناب کریں، کہیں ایسا نہ ہو کہ مذکورہ نکاح بعد میں جاکر مصالحِ نکاح کے خلاف واقع ہوجائے۔ نیز اس صورت میں آپ مذکورہ خاتون سے بے محابا تعلق اور ملاقات بھی ترک کردیں؛ کیوں کہ اجنبیت کی وجہ سے آپ پر ان سے پردہ لازم ہے۔

شرح بلوغ المرام (الجزء الثامن) - من عير أخاه بذنب لم يمت حتى يعمله:

"وعن معاذ بن جبل -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله صلى الله عليه وعلى آله وسلم: « من عير أخاه بذنب لم يمت حتى يعمله ». أخرجه الترمذي وحسنه، وسنده منقطع. بل سنده ضعيف جداً ولايكفي قوله: منقطع -رحمه الله- هو منقطع من رواية خالد بن معدان وهو لم يدرك معاذاً، لا شك أنه لم يدرك معاذاً، معاذ تقدمت وفاته -رضي الله عنه- وفيه أيضا علة من رواية محمد بن الحسن بن أبي يزيد الهمداني، وهو متروك ومنهم من اتهمه، الحديث ضعيف جدا من هذا الطريق من طريق خالد بن معدان عن معاذ بن جبل -رضي الله عنه-. وجاء في حديث واثلة أيضا عند الترمذي: « لاتظهر الشماتة بأخيك فيعافيه الله ويبتليك ». وينظر في ثبوته، وهذا المعنى من جنس ما تقدم، يعني أن الإنسان حينما يعير أخاه بذنب هذا يدل على عدم النصح؛ لأن الواجب هو النصيحة لا التعيير، والتعيير والإشاعة بالقول أمر لايجوز، وهذه سيئة والسيئة أخت السيئة، والإنسان يبتلى بجنس السيئة التي وقع فيها من جهة أنه عير أخاه بهذا الذنب، وربما يكون أخوه معذوراً، وهو لايدري، قد يكون تاب، وقد يكون وقع هفوة. ثم أيضا الواجب النصح، حتى ولو فرض أنك تعلم أنه أصر فلا يجوز التعيير، ولهذا النبي عليه الصلاة والسلام قال: « إن زنت أمة أحدكم فليجلدها الحد ولايثرب عليها ». نهى عن التبكيت، فلايجوز، والنبي عليه الصلاة والسلام قال لما قال رجل وهو عبد الله حماراً الذي يلقب بحمار، جاء من عدة أخبار من البخاري وغيره، فقال رجل: أخزاه الله، قال: « لاتعينوا الشيطان على أخيكم ». وفي لفظ: "لعنه الله" فنهى عليه الصلاة والسلام وقال: « ما علمت أنه يحب الله ورسوله »(5) وهذا يبين أن الواجب هو النصح. ثم الإنسان إذا أذنب في ذنب إن كان فيه حد وقد أقيم عليه الحد فقد ارتفعت التبعة، فإن تاب فاجتمع له مطهرة، وإن كان ليس فيه حد فإن كان استتر فيه فلايجوز إشاعته ولاتستعير فالواجب أن تستره، وإن كان قد أظهره، فالواجب أن يسلك معه ما يسلك مع أمثاله من نصحه وتوجيهه، فإن أصر على المجاهرة، فلا يترك يعيث شرا وفسادا، أما التعيير فليس طريق إلى الإصلاح بل هو طريق إلى فساد، وأن يزيد من الولوع بهذا المنكر وهذا الذنب حينما يعير به ويعلم أنه قد ظهر واشتهر، وذنوب أهل الإسلام عيب في أهل الإسلام فالواجب عليه أن يسترها، ولهذا يقول النبي عليه الصلاة والسلام كما روى عقبة بإسناد جيد عقبة بن عامر -رضي الله عنه- لما دعي إلى قوم وقيل: إنهم يشربون الخمر، فقال: إن يبدو لنا أمر نأخذ به كما قال ابن مسعود -رضي الله عنه- ثم قال: « من رأى عورةً فسترها فكأنما أحيا موءودة » الله أكبر، شوف من رأى عورة، نكرة في سياق النفي يشمل كل عورة، وهذا يبين أن هذه الذنوب عورات والعورات الواجب سترها، ولا أقبح من العورات بين أهل الإسلام فالواجب على الإنسان أن يستر عورته وأعظم العورات هو الذنوب؛ لأن الله مطلع وحرمها، ثم تأتي أنت وقد يكون هذا الذي أذنب استتر فتعيره، فيكون ذنب الذي عير أعظم من الواقع فيها، وهذا قد يكون هو عين الإصابة في الذنب أو فعل الذنب؛ لأنه يكون إثمه أعظم، وربما يئول به أن يقع في مثل هذا الذنب، فلهذا جاء النهي عنه، نعم. (1) الترمذي : صفة القيامة والرقائق والورع (2505). (2) الترمذي : صفة القيامة والرقائق والورع (2506). (3) البخاري : البيوع (2234) , ومسلم : الحدود (1703) , والترمذي : الحدود (1440) , وأبو داود : الحدود (4470) , وابن ماجه : الحدود (2565) , وأحمد (2/376) , ومالك : الحدود (1564) , والدارمي : الحدود (2326). (4) البخاري : الحدود (6777) , وأبو داود : الحدود (4477) , وأحمد (2/299). (5) البخاري : الحدود (6780). (6) أبو داود : الأدب (4891) , وأحمد (4/158) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144102200356

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں