بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی کمپنی کا منیجر کمپنی کے لیے خریداری پر کمیشن وصول کر سکتا ہے؟


سوال

 ایک کمپنی اپنا ایک مینیجر رکھتی ہے؛ تاکہ وہ کمپنی کے تمام اخراجات کا ریکارڈ رکھے۔ اب وہ مینیجراپنا ایک آدمی رکھتا ہے جوکمپنی کوبازار سے سامان خرید کر لاکر دے۔لیکن مینیجر اپنا آدمی وہ رکھتا ہےجو اس کو کمیشن دے، جب کہ کمپنی مینیجر کو کمیشن کی اجازت نہیں دیتی۔

مثال کے طور پر کمپنی کو پنسل کا ڈبہ چاہیے تو اب مینیجر اس اپنے آدمی کو  بولتا ہے کہ ڈبہ لے کر آؤ۔وہ دکان سے ڈبہ 50 کا خریدتا ہے اور بل 70 کا بنواتاہے۔اور وہ بل مینیجر کو دیتا اور مینیجر وہ بل کمپنی کے کھاتے میں ڈال کر 70 روپے وصول کرتا ہے اور 10 روپے خود رکھتا ہے 60 اس کو دیتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا مینیجر غلط ہے یا وہ درمیان والا بندہ غلط یا دکان دار غلط ہے یا تینوں حرام کے مرتکب ہیں؟ اور اس کام کو صحیح طرح کرنے کی کیا صورت ہوگی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ منیجر چوں کہ کمپنی کا ملازم ہے  اس حیثیت سے منیجر کمپنی کا وکیل بالشراء ( خریداری کا وکیل)  ہوا، اور وکیل امین ہوتا ہے، لہذا مذکورہ منیجر جب کوئی  چیز کمپنی کے لیے خریدے یا کسی کو خریدکر  لانے کا کہے  تو  جس قیمت پر اس کو بازار سے خریدا جائے اسی قدر قیمت کمپنی سے وصول کرنا جائز ہو گا، کمیشن کے نام پر کمپنی سے زائد رقم وصول کرنا جائز نہیں ہو گا، نیز اس صورتِ حال میں منیجر  غلطی پر ہے اور اس کا ملازم اور دکان دار جو غلط کام میں اس کی معاونت کر رہے ہیں وہ بھی گناہ گار ہوں گے؛ کیوں کہ 50 روپے کی خریدی ہوئی چیز کا بل 70 روپے کے حساب سے بنوانا جھوٹ پر مشتمل ہے؛ لہذا اس گناہ میں سب شریک ہیں۔

اس کام کی صحیح صورت اس وقت ممکن ہے جب یہ شخص (منیجر)  اس کمپنی کا ملازم نہ ہو؛ لہذا جب وہ اس کمپنی ملازم نہ ہو  اور کمپنی کے لیے خریداری کرے تو کمیشن طے کر کے ہر خریداری پر کمیشن وصول کر سکے گا۔

درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"(إذا شرطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة، وإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا. فليس له أن يطالب بالأجرة) يستحق في الإجارة الصحيحة الأجرة المسمى. وفي الفاسدة أجر المثل ... لكن إذا لم يشترط في الوكالة أجرة ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعًا، وليس له أن يطلب أجرة. أما إذا كان ممن يخدم بالأجرة يأخذ أجر المثل ولو لم تشترط له أجرة". (الکتاب الحادی عشر الوکالۃ، الباب الثالث،الفصل االاول،المادۃ:۱۴۶۷ ،ج:۳؍۵۷۳،ط:دارالجیل) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200833

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں