بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی کام کے ہوجانے پر اعتکاف کی نذر ماننا


سوال

میں نے ایک منت مانگی تھی کہ میرا یہ کام ہو گیا تو میں اعتکاف بیٹھو ں گا، اللہ کے کرم سے میرا وہ کام ہو گیا جس سال میں نے اعتکاف بیٹھنا تھا،  اس سال میرے گردے میں  پتھری ہو گئی اور میں نہ بیٹھ  سکا،  پھر میری فیملی اسلام آباد شفٹ ہو گئی، میرے بچے ابھی بہت  چھوٹے ہیں،  اگر میں اسلام آباد میں اعتکاف بیٹھوں  تو  مجھے مسجد میں کھانا پہنچانے والا کوئی نہیں ہے، کیا مجھے اعتکاف لازمی بیٹھنا پڑے گا یا کوئی ہدیہ دے سکتا ہوں اور کتنا ہو گا ہدیہ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب آپ نے مطلق  یہ نذر مانی کہ اگر میرا یہ کام ہوگیا تو میں اعتکاف میں بیٹھوں گا، اور اس سے آپ کی نیت رمضان کے آخری عشرہ کا مسنون اعتکاف ہی  کی نذر تھی، اور مطلق اعتکاف کا فرد کامل بھی وہی ہے تو آپ پر رمضان کے آخری دس دن کا اعتکاف روزے کے ساتھ لازم ہوگیا ہے،  چوں کہ آپ نے سال متعین نہیں کیا تھا؛  اس لیے جس بھی سال آپ  رمضان کے آخری دس دن کی نذر کا  اعتکاف روزے کے ساتھ  کرلیں گے آپ کی نذر پوری ہوجائے گی، اگر مرتے دم تک موقع نہ ملے تو  دس دن کے فدیے (یعنی ہر دن کے بدلے ایک صدقہ فطر کی مقدار) کی وصیت کرنا لازم ہوگا۔

الفتاوى الهندية (1/ 214):

"ولو نذر اعتكاف شهر فمات أطعم لكل يوم نصف صاع من بر أو صاعًا من تمر أو شعير إن أوصى، كذا في السراجية. ويجب عليه أن يوصي، هكذا في البدائع. وإن لم يوص، وأجازت الورثة جاز ذلك.ولو نذر اعتكاف شهر، وهو مريض فلم يبرأ حتى مات لا شيء عليه، وإن صح يوما ثم مات أطعم عنه عن جميع الشهر، كذا في السراجية. "

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200484

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں